کتاب: محدث شمارہ 48 - صفحہ 14
تواضع اختیار کیجیے!
(چنانچہ) میں نے جواب دیا کہ ’’عبد نبی‘‘ (نبوت کے ساتھ عبدیت) چاہتا ہوں اس کے بعد (آپ کی کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ) کھانا بھی تکیہ لگا کر نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ
’’میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے ایک غلام کھاتا ہے اور اس طرح بیٹھتا ہوں جس طرح ایک ’بندۂ بے دام‘ بیٹھا کرتا ہے۔‘‘ (شرح السنۃ وابن حبان)
اقتدار گو برا نہیں، تاہم مقام نازک ہے۔ یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے، اس سلسلے میں ’’مسئولیت‘‘ کا باب بہت بڑا باب ہے اور بہت ہی کٹھن ہے۔ دانا بینا انسان اسے آسانی سے قبول نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ پھولوں کا تاج نہیں ہے، کانٹوں کا بچھونا ہے۔ جس کو نیند عزیز نہیں وہی اسے اپنے لئے پسند کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ: اصلی بادشاہ ’’احکم الحاکمین‘‘ ہے، اور نبی کا تعلّق اسی ذاتِ کبریا سے ہوتا ہے، اس لئے یہاں ’’نسبت عبدیت‘‘ کی بہتر ہوتی ہے بادشاہت کی نہیں۔
بہرحال ’’بادشاہت‘‘ اپنی گوناگوں ذمہ داریوں اور نزاکتوں کی وجہ سے ’’نبی بردوش‘‘ بھی ہو تو خطرے سے خالی نہیں ہے، جو لوگ اسے جاہ طلبی اور عیشِ فراواں کے جذبہ سے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، وہ شاید اس کے حوصلہ شکن نتائج سے بے خبر ہیں یا نفس و طاغوت کی غلامی کی وجہ سے وہ اپنے اخروی لا زوال مستقبل کو اپنے فانی اور سطحی حال پر قربان کیے جا رہے ہیں۔ اِنَّا للّٰہ
گو اللہ کے نبی اپنے دائرۂ کار میں، لوگوں کے لئے ’’فرمانروا‘‘ ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ احکم الحاکمین کی مرضی اور مشیت کے تابع ہوتے ہیں، اس لئے وہاں بادشاہتکا نہیں بلکہ ’’عبدیت‘‘ کا احساس پسِ پردہ کار فرما ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں شاہزادگی کے بجائے ’’بندگی‘‘ کا رنگ چھایا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے ایسے لفظ اور خطاب کو بھی پسند نہیں فرمایا جو ’’بادشاہت‘‘ کی راہ میں آتا ہے، جیسے ’’سید‘‘ کا نام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کہنے والے کو روک دیا تھا کہ ’’سید‘‘ صرف اللہ ہے (ابو داؤد) یعنی میرے لیے یہ لفظ استعمال نہ کرو۔
اَدُّو الامانات الی اھلھا:
۸۔ عن عبادۃ بن الصابت قال بایعنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ ....... علی ان لّا ننازعَ الامر اھلہٗ (الصحیحین)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: