کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 8
التفسیر والتعبیر
مولانا عزیز زبیدی واربرٹن
سورۂ بقرہ
(قسط ۱۷)
یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ۱؎ اذْکُرُوْا۲؎ نِعْمَتِیَ۳؎ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ
اے بنی اسرائیل ہمارے وہ احسانات یاد کرو جو ہم تم پر کر چکے ہیں
______________________________________
۱؎ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ (اے بنی اسرائیل) اسرائیل دو لفظوں سے مرکب ہے اور یہ دونوں عبرانی الفاظ ہیں ’’اِسْرا‘‘ اور دوسرا ’ایل‘‘ اِسرا کے معنی عبد (بندہ) اور صفوہ (منتخب اور برگزیدہ) کے ہیں۔ اور ’’ایل‘‘ کے معنی اللہ ہیں، یعنی عبد اللہ۔
ایل ھو اللّٰہ واسرا ھو العبد (ابن جریر طبری ص ۲۴۸،۱)قال ابن عباس: ان اسراءیل کقولک عبد اللہ. (ایضاً)
اور اس سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں، جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتے اور حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد محترم اور پوری نسل بنی اسرائیل کے جد امجد ہیں۔ ایک طویل حدیث میں ہے:
قال ابن عباس حضرت عصابۃ من الیھود نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال لھم: ھل تعلمون ان اسرائیل یعقوب مرض مرضا شدیدا قالوا اللھم نعم! فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللھم اشھد (ابو داؤد طیالسی ص ۳۵۷، شھر بن حوشب عن ابن عباس)
قرآن حکیم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: ﴿ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعْ نُوْحٍ وَمِنْ ذُرِّیَّۃٍ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْرَآءِیْلَ﴾ (پ۱۶. مریم ع۴)
اسرائیل، کے ایک معنی رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے اور چلنے کے بھی ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے