کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 6
﴿وَاَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا﴾ (پ۱۰۔ الانفال۔ ع۶)
جو لوگ اس اساسِ حق کے سوا اتحاد کر کے پھولے نہیں سماتے وہ نادان نہیں سمجھتے کہ وہ اور کسی گھیرے میں گھرنے والے ہیں۔
﴿وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وّرِئَآءِ النَّاسِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ﴾ (پ۱۰۔ انفال۔ ع۷)
’’وحدت ملی‘‘ کا تصوّر جتنا دلچسپ اور دلفریب ہے، اتنا بڑے ایثار کا طالب بھی ہے۔ اس کے لئے خود محنت کرنا ہو گی، یہ ملت بنی بنائی نہیں ملا کرتی، ہاں جو لوگ اس سے ہمکنار ہو جاتے ہیں وہ رحمتوں سے بھی ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔
﴿وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ . اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ﴾ (پ۱۲۔ ھود ع۱)
اس اختلاف سے نکال کر ملی وحدت سے ہم آغوش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ: انداز حکیمانہ اور مشفقانہ ہو، ایسا نہ ہو کہ پہلے انہیں گالیاں دی جائیں پھر انہیں دوستی کے لئے دعوت دی جائے۔
﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾(پ۱۵. النحل. ع۱۶)
حق ایک ایسی شے ہے، جس سے فطری طور پر تو کسی کو بھی چڑ نہیں ہو سکتی، لیکن اس سے وہ لوگ ضرور انحراف کرتے ہیں، جو باہم کدورت رکھتے ہیں، اس لئے ایک کے آجانے پر دوسرا دوسری راہ اختیار کر لیتا ہے اگر علاج کرنا ہے تو بس اسی خود غرضی اور باہمی عداوت کا کیجئے۔
﴿وَمَآ اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْھُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ﴾ (پ۲. بقرہ. ع۲۶)
جو لوگ حق کے لئے باہمی منافرت سے بالا تر ہو کر ملت کی یکسوئی اور وحدت کے لئے متحد ہو جاتے ہیں، وہی صراط مستقیم بھی پا لیتے ہیں۔
﴿فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾(پ۶. بقرہ ع۲۶)
ملت انسانیہ کی اس وحدت کا ظہور اسلام کے اصولوں کے مطابق ممکن ہے، اس لئے