کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 5
وحدت کے لئے ’’حق‘‘ اور جو بھی بنیاد مہیا کی جا سکتی ہے، وہ فردِ واحد یا ایک ٹولہ کے وہ نجی اغراض ہو سکتے ہیں جن کی قدریں عموماً بدلتی رہتی ہیں اور محدود اور عارضی مصالح ہونے کی بنا پر ان سے صرف محدود اور شاطر طبقہ ہی محظوظ ہوتا ہے، دوسرا صرف موہوم امیدوں کے سہارے جیتا ہے یا سبز باغ دکھانے والوں کے لاروں پر۔ بہرحال ان سے ’’نوعِ انسان‘‘ کی حیثیت، سے پوری ملت انسانی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، جتنی ہوتی ہے اس کی حیثیت صرف سراب کی ہوتی ہے اور بس۔ کسی آمر کو شکست دینے کے لئے اگر آمریت کے بجائے اس کی ذات ہے تو بھی غلط ہے اگر آمریت ہے لیکن پوری اپوزیشن یا قوم اس سلسلے میں متفق نہیں ہے تو بھی کامیابی مشکل ہے۔ قرآن کا نقطۂ نظریہ ہے کہ: نوع انسان کو وحدت کا حامل ہونا چاہئے لیکن بھلے انسانوں کی طرح اور بھلے مقاصد کے لئے ڈاکوؤں اور چوروں کی جمعیت کتنی ہی مستحکم ہو قابل رشک نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے نیک توقعات قائم کی جا سکتی ہیں۔ قرآن نے اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا ہے۔ ﴿اِنَّ ھٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ. وَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلٌّ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ﴾.(پ۱۴۔ انبیاء۔ ع۶) حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ان کے باہمی اختلافات، اندرونی انتشار اور افتراق کا فیصلہ اس حق کے مطابق کریں جو ہم نے نازل کیا ہے، ان کی اکثریت یا با اثر اقلیت کی خواہشات کے مطابق ان کی اصلاحِ حال کی کوشش نہ کیجیے، کیونکہ یہ انداز مزید فتنوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ ﴿اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَاءَھُمْ وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتَنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ﴾ (پ۲. مائدہ. ع۷) اگر وہ لوگ اس پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے تو پھر وہ جانیں، کوئی آفت ہی ان کی آنکھیں کھولے گی۔ ﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاَعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ﴾ (پ۶. مائدہ. ع۷) تمہیں حق کا دامن تھام کر رہنا چاہئے، اس سلسلے میں اختلاف کیا تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، حق کے سوا اور جس بھی ’’نعرہ‘‘ کو اپنے اتحاد کی بنیاد بناؤ گے وہ موثر ثابت نہیں ہو گی۔