کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 4
سے پروگرامِ حیات لے کر اُٹھی تھی اور چار دانگ عالم چھا گئی تھی، جزوی اور اکا دکا انفرادی فرو گزاشتوں کے سوا باقی ساری ملت ایک ’’جمعیت‘‘ بن کر رہی اور ایک ’’امت مسلمہ‘‘ کے طور پر زندہ رہی۔ جب اس کی اس حیثیت میں زوال آیا تو حق تعالیٰ نے اصلاحِ حال کے لئے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے تاکہ ان کو حق پر مجتمع رکھے، ان کے بحر و بر میں انتشار و افتراق کی جو لہریں اُٹھنے لگی ہیں ان کو دبا دیں اور حق پر متحد رہنے کی برکات اور افتراق کی جاں گسل مضرت سے ان کو آگاہ کریں۔
﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیِنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ (پ۲، ع۲۶) وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلَّا اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا﴾ (یونس ع۲)
قرآن حمید کے اس انکشاف سے واضح ہوتا ہے کہ:
خدا کو بھی ’’ملتِ انسانیہ‘‘ کی وحدت مطلوب ہے لیکن جب کہ اس کی اساس ’’اسلامیہ‘‘ ہو۔ یعنی اس وحدت کی عمارت ’’حق‘‘ کی بنیادوں پر اُٹھائی جائے، کیونکہ نوعِ انسانی کے لئے دیر پا اور نفع بخش یہی شے ہوتی ہے، باطل ہے، باطل، ریت کی اساس ثابت ہوتا ہے، جو خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔
﴿کٰذَلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہ الْحَقِّ وَالْبَاطِلَ ط فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآءً وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاس فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ﴾
(پ۱۳۔ رعد۔ ع۲)
اس لئے فرمایا: اب ’’اللہ کی رسی‘‘ (کتاب اللہ) کے گرد جمع ہو جاؤ، اس سے ادھر ادھر بھٹکنے سے پرہیز کرو، کیونکہ اس سے پرے آگ ہی آگ ہے، دوزخ کی آگ، خود غرضیوں کی آگ اور غارت گر انسانیت فتنوں کی آگ، جن سے تمہیں پہلے نجات دلائی گئی ہے۔
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَانْقَذَکُمْ مِنْھَا ﴾(پ۴۔ آل عمران۔ ع۱۱)
یہاں پر ‘’’’جمیعا‘‘ (سارے) کا لفظ ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی حق سے جو وابستگی نوع انسانی کے لئے رحمتوں اور برکات کا موجب ہوتی ہے وہ صرف وہی ہوتی ہے، جو اجتماعی حیثیت سے ہوتی ہے، انفرادی وابستگی کی برکات کا دائرہ بھی افراد تک ہی محدود رہتا ہے، بسا اوقات اجتماعی بے تعلقی کی نحوست کی وجہ سے افراد بھی ان فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں جو ان کا حصہ ہو سکتے ہیں۔