کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 32
نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی) فرما کر ہر دور میں جنم لینے والے کیمیا دانوں، جغرافیہ دانوں، ماہرینِ نباتات، ماہرین علم حیوانات، ماہرین طبیعات اور دیگر تمام تر سائنسی علوم کے ماہرین کے لئے تحقیق و تدقیق کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ آج سے ایک صدی پیشتر اگر کوئی شخص کہتا کہ مادہ کے حقیر ترین ذرے یعنی ایٹم میں ایک مربوط اور منظم نظام کام کر رہا ہے تو اسے اس ایک صدی پہلے کے لوگ احمق خیال کرتے۔ مگر خالقِ حقیقی نے اسی حقیقت کو کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ عرب بدو بھی ماننے پر مجبور ہو گئے اور موجودہ دور میں جنم لینے والا انسان تو اس حقیقت سے انحراف کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ دنیا کا حقیر ترین ذرّہ ’’ایٹم‘‘ اپنے اندر پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران کا ایک وسیع نظام لئے ہوئے ہے۔ اسے اس حقیقت کا بھی علم ہے کہ ایٹم کو توانائی میں تبدیل کرنے سے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسے گنجان آباد شہر تباہ و برباد ہو سکتے ہیں۔ یہ تو وہ معلومات ہیں جو عام انسان بھی حاصل کر چکا ہے جب کہ سائنسدان نت نئے تجربات کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں حیران کن ایجادات ہو رہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ایٹم کے متعلق ان حاصل کردہ معلومات سے کہیں زیادہ حیران کن اطلاعات حاصل ہوں۔ اور یہی سائنسی انکشافات ہیں جو اس حقیقت کو ماننے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ خداوند کریم نے دنیا میں کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ ایٹم تو کائنات کا چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ ہے جس کے متعلق ابھی انسانوں کی معلومات ناکافی ہیں۔ اس صورتِ حال میں انسان کائنات اور اس میں موجود بڑے بڑے نظاموں کی عظمت، زمین اور آسمان میں موجود اشیاء کی تخلیق کے بارے میں سوچ کر خالقِ حقیقی کی حمد و ثنا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جوں جوں سائنسی ترقی کی منازل طے کرے گی۔ حقائق کو بے نقاب کرے گی۔ اسی قدر انسان کا یقین محکم ہوتا جائے گا اور اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ واقعی دنیا میں خداوند کریم نے کوئی چیز بھی عبث پیدا نہیں کی۔ یہ امتیاز صرف اور صرف قرآن مجید کو حاصل ہے کہ اس میں بیان کردہ قوانین، نظریات اور اصول ہر دور، ہر ذہن اور مکتبۂ فکر کے لئے ہدایت ہیں۔ قرآنی آیات کی اہمیت، افادیت اور عظمت واضح سے واضح تر ہوتی جائیں گی۔ جب انسان کائنات کے تمام سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاتا رہے گا۔ جب اس کی بینا نظر قرآن مجید میں موجود اور پنہاں موتیوں کی شناخت کرے گی۔ کارواں رواں دواں ہے مگر ابھی آغازِ سفر ہے۔ جوں جوں فاصلہ طے ہو رہا ہے۔ سفر طویل ہو رہا ہے۔ تسخیر قمر کے بعد ہی انسان کو سیاروں، ستاروں اور کہکشاں کے فاصلوں کا