کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 31
کہ تقابل کرنے والا دونوں علم پر دسترس رکھتا ہو۔ مگر بصد افسوس اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جدید دور میں جن لینے والا ذہن قرآن مجید کے مطالعہ کرنے کی نعمت سے محروم ہے۔ جب وہ سائنس کی کسی شاخ میں کوئی اعلیٰ ڈگری حاصل کر لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو پڑھا لکھا انسان تصوّر کرنے لگتا ہے۔ اس طرح ایک عجیب صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سائنسی مضمون میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی قرآن مجید کے علوم سے بے بہرہ رہتا ہے جو کہ صحیح معنوں میں تمام تر علوم کا مخزن ہے۔ موجودہ دور میں قرآن کے حقائق کو جو چیز سب سے زیادہ واضح کر رہی ہے وہ سائنس ہے اور سائنس کو جو چیز سب سے زیادہ ناقص ثابت کر رہی ہے وہ بھی سائنس ہی ہے سائنس کا تعلق تجربات و مشاہدات سے ہے۔ قانون بقائے مادہ Law of Conservation of Mass اس وقت تک تو صحیح ہے جب تک ایٹم ناقابلِ تقسیم ذرّہ تصوّر کیا جاتا ہے مگر جب آئن سٹائن کا مشاہدہ اور تجربہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ ایٹم ناقابلِ تقسیم ذرہ نہیں بلکہ اسے توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مشاہدے اور تجربے کے بعد ’’قانون بقائے مادہ‘‘ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ وقت کی رفتار اور ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ذہنی کلیات بھی بدلتے رہتے ہیںَ ایک سائنسی نظریہ ایک مقررہ مدت تک تو ایک اٹل حقیقت اور مسلمہ قانون مانا جاتا ہے۔ مگر بعد میں آنے والے سائنس دان اپنے تجربات و مشاہدات کی بنا پر اسے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتے ہیں۔ مگر الہامی اور قرآنی قوانین وہ قوانین ہیں جن کی صداقت، عظمت اور ابدیت میں وقت کی رفتار اور ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ یقین محکم سے محکم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ کلیہ بقائے مادہ، آئن سٹائن اور قرآنی قانون کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ ﴿اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَامَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًاج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.﴾ ’’وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو کھڑے،بیٹھے اور کروٹ لیتے یاد کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین میں موجود اشیاء کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ تیری ذات پاک ہے۔ تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں ’’ربنا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا‘‘ (اے ہمارے رب! تو