کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 30
اور اس سلسلہ میں مکمل رہنمائی پیش کرتا ہے تو لا محالہ تمام علوم خواہ مادی ہوں یا روحانی، غیر سائنسی ہوں یا سائنسی کا مرجع و منبع یہی ہے۔ نوجوان نسل کے ذہنی انتشار کا ایک بڑا باعث یہ ہے کہ وہ لادین سائنس میں قرآن دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کا ذہن اس بات سے غافل ہے کہ اگرچہ سائنس میں قرآن نہیں لیکن قرآن میں ’’سائنس‘‘ ضرور موجود ہے۔ سائنس تو دراصل انسانی مشاہدات، تجربات سے حاصل شدہ نتائج کا نام ہے جس کا مبحث ’’مادہ‘‘ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مادہ کا وجود پہلے عمل میں آیا یا سائنس کا؟ ظاہر ہے مادہ پہلے بنا۔ بعد میں انسان کے متجسس ذہن نے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں قوانین اخذ کر کے جمع کیے اور اسے سائنس کا نام دیا۔ گویا علمِ سائنس ایک ایسا علم ہے جو انسانی ذہن کی ایجاد ہے اور یہ مادہ سے بحث کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان مادہ کا خالق نہیں بلکہ اس کا خالق خود اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مصوّر ہی اپنی تصویر کے محاسن و معائب کو بہتر جانتا ہے۔ مصور اور خالق ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ مادے کی ترکیب، ماہیت اور خواص سے بخوبی واقف ہے اسی لئے اپنے آپ کو ’’علیم‘‘ کے وصفی نام سے یاد فرماتا ہے۔ یہ تسلیم کر لینے کے بعد کہ مادہ پہلے وجود میں آیا اور سائنس بعد میں۔ مادے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور علمِ سائنس انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ قرآن مجید من جانب اللہ حضرت محمد عربی پر نازل ہوا۔ یہ سوال کرنا کہ کیا قرآن مجید میں سائنسی علوم بھی موجود ہیںِ ایسے ہی ہے جیسا کہ کوئی پوچھے ’’کیا اللہ تعالیٰ وہ علوم بھی جانتا ہے جو انسان جانتا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو ستی ہے کہ انسان اپنے ذہن کے تخلیقی مضامین و علوم کو اس قدر اہمیت دے جب کہ اس کا ذہن خالقِ حقیقی کی تخلیق ہے۔ بہ الفاظِ دیگر انسانی ذہن کے تخلیق کردہ مضامین اور علوم کو قرآن مجید پر ترجیح دینا ایسے ہی ہے جیسے انسان خالق پر مخلوق کو افضل قرار دے۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں وہ ابدی اور دائمی اصول پیش کئے ہیں جن کو بنیاد بنا کر انسان تحقیق و تدقیق کا کام بطرزِ احسن انجام دے سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ذہنی انتشار کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ وہ سائنسدانوں کے بنائے گئے نظریات و قوانین پر قرآن مجید کی آیات کو منطبق کر کے دیکھنا چاہتا ہے اور جب کبھی اسے سائنسی قوانین اور قرآنی حقائق میں اختلاف نظر آتا ہے تو نتیجتاً وہ ذہنی انتشار ہو جاتا ہے۔ تقابل و انطباق کی یہ عادت خام ذہن کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔ سائنسی قوانین اور قرآنی حقائق کے درمیان تقابل تو جبھی ممکن ہے