کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 3
کتاب: محدث شمارہ 46 مصنف: ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی،لاہور ترجمہ: فکر و نظر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نیک ہو جاؤ! ایک ہو جاؤ! وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا خدا کی جتنی مخلوق ہے، قدرتی توالد و تناسل کے سوا اور کسی بھی معاملہ میں وہ ایک دوسرے کی محتاج نہیں ہے اور نہ ہی وہ ’’قدرتی توافق‘‘ کے سوا کسی دوسری اختیاری اور شعوری وحدت کا اساس رکھتی ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ ان سب سے جدا اور مختلف ہے۔ کیونکہ ساری دنیا میں صرف اس کو ’’مرکزی حیثیت‘‘ حاصل ہے، اس کے دوشِ ناتواں پر دونوں جہاں کا بوجھ ہے۔ دنیا کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری اور اخروی سعادت کے حصول کا فریضہ۔ ظاہر ہے یہ دونوں طویل منزلیں اور عظیم مہمیں کسی فردِ واحد کے بس کا روگ نہیں ہے۔ سارے مل کر اس کو سر کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کریں تو مہم سر ہو گی ورنہ نہیں۔ باقی رہی جوں توں کر کے پار ہونے والی بات؟ سو وہ ’’ابن آدم‘‘ کے مقام و مرتبہ سے فروتر بات ہے، شایانِ شان نہیں ہے۔ اور نہ ہی یوں وہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جو اس عظیم ہستی کے سامنے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ: ایک انسان، ناطق ہی سہی بہرحال حیوان بھی ہے، اس لئے اگر خالقِ کائنات کی طرف سے اس کو وہ مشعلیں مہیّا نہ کی جاتیں، جن کی روشنی میں انسانیت اور اس کی منزل اس پر روشن ہو سکتی ہے تو اس کے بہیمی تقاضے اسے جانور ہی رکھتے جو کتنے ہی ’’طبعی اتفاق اور قدرتی توافق‘‘ کے مالک ہوتے، بہرحال ’’کار جہاں‘‘ چلانے کے لئے قطعاً کافی نہ ہوتے۔ ان کی تعمیر کے دائرہ سے ان کی تخریب کاری کہیں زیادہ رہتی، شاید ان کی ساری تگ و دو، پیٹ کے محور پر ہی گھومتی اور بالکل کولہو کے بیل کی طرح، ساری عمر سفر جاری رکھنے کے باوجود وہاں ہی رہتے جہاں سے وہ کبھی اُٹھتے، خدا کے نام پر ہزاروں لات و عزیٰ بھی تلاش کر لیتے لیکن خدا بہرحال انہیں نہ ملتا۔ بہرحال نوعِ انسان کی اُٹھان ایک ایسی ’’ملت انسانیہ‘‘ کے ساتھ ہوئی تھی جو حق تعالیٰ