کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 29
کوشش کرتا رہتا ہے کہ یہ کتاب مادی وسائل کا حل پیش نہیں کرتی بلکہ صرف اخلاقی اور روحانی مسائل سے بحث کرتی ہے۔ چنانچہ وہ خام ذہن جس میں ابھی اس کتاب مبین کی حقیقی اہمیت اور افادیت راسخ نہیں ہوئی تھی اس نے اس مقدس کتاب کو اس حد تک تو ضرور اہمیت دی کہ اسے اپنے گھروں میں بطور خیر و برکت کے جگہ دی مگر اس سے عملی فائدہ نہ اُٹھا سکا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس نے مادی پہلو تو بجائے خود چھوڑا لیکن صحیح روحانی اور اخلاقی اقدار کو بھی باقی نہ رکھا سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں وہ مادی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا وہاں ایمان و یقین کی دولت سے بھی تہی دامن ہو گیا۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جس قوم کو نیست و نابود کرنا ہو اس کی ماضی کی تاریخ کو اس کی نظروں سے اوجھل کر دو۔ وہ قوم خود بخود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی۔ دشمن سیاستدانوں نے یہی اصول مسلمانوں پر آزمایا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی ماضی اس کتاب سے وابستہ ہے۔ ماضی میں جو فتوحات، علمی و اقتصادی ترقی ہوتی رہی اور جس بنا پر مسلمان دنیا کی فاتح اور کیمیا گر قوم بن گئے وہ دراصل اسی مقدس کتاب کی تعلیم و تدریس ہی کی بدولت تھی۔ چنانچہ مکار ودشمن نے سب سے زیادہ جو کوشش کی وہ یہی تھی کہ قرآن مجید کی جامع افادیت مسلمان کے ذہن سے ہمیشہ کے لئے محو کر دی جائے۔ اگر آج بھی اس مقدس کتاب کی صحیح تعلیم و تدریس کا تسلی بخش اہتمام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اب بھی مسلمانوں میں جابر بن حیان، الخوارزمی، البیرونی اور غزالی جیسے مفکر اور کیمیا دان پیدا نہ ہوں۔
دین و مذہب کے اس ناقص تصوّر کی وجہ سے جدید دور کے مسلمان نوجوانوں کے اذہان میں کچھ اس طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ:
۱۔ کیا قرآن مجید صرف اخلاقیات کی کتاب ہے؟
۲۔ کیا قرآن مجید میں سائنسی علوم بھی موجود ہیں؟
۳۔ اگر قرآن مجید میں سائنسی علوم موجود ہیں تو دوسری اقوام کی نسبت مسلمانوں میں سب سے زیادہ سائنس دان کیوں نہیں؟
ایسے ہی دیگر آج کل کے پڑھے طبقے کے اذہان میں اٹھ رہے ہیں اور بد قسمتی سے ان سوالات کے جوابات معقول صورت میں مسلمان قائدین او دینی علماء سے بہت ہی کم حاصل ہو رہے ہیں چنانچہ اسی موضوع پر ہی کہ ’’کیا قرآن مجید صرف اخلاقی کتاب ہے یا اس میں سائنسی علوم بھی موجود ہیں‘‘ کچھ لکھنا موزوں ہو گا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ قرآن مجید جب تمام انسانی ضروریات کا خود کفیل ہے