کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 28
یہ ایک فطری تقاضا تھا کہ جس خالق نے انسان کو طبعاً و فطرتاً (مختلف ضروریات و حاجات کا) حاجت مند اور ضرورت مند پیدا کیا اور پھر اس کے لئے گوناگوں مسائل بھی پیدا کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے تمام انسانی مسائل کا حل اور تمام انسانی ضروریات و حاجات کی تسکین و تکمیل کے لئے راہنمائی کا بندوبست بھی خود کر دیا۔ بالفاظِ دیگر تمام ممکنہ علوم اس کتابِ مبین میں رکھ دیئے۔ ’’لا رطبٍ ولا یابسٍ الا فی کتٰب مبین‘‘ کی فضیلت صرف اسی کتاب کے حصہ میں آئی۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے مسلمان مختلف ادوار میں اس الہامی کتاب سے استفادہ کرتا رہا۔ اور اسی سے اپنے روحانی، مادی، جسمانی، طبعی ہر قسم کے انسانی مسائل کا حل تلاش کرتا رہا۔ لیکن دوسری طرف ایک وہ طبقہ تھا جو مذہب کے نام پر صرف روحانی اور اخلاقی علوم میں منہمک ہو گیا۔ مختلف سائنسی علوم پر نہ صرف خود نظر نہ کی بلکہ اسے دین و مذہب سے متصادم قرار دے کر مذہب اور سائنس کو برسر پیکار کر دیا گیا اس طرح سے دین و دنیا کی تفریق کر دی۔ ان کے پراپیگنڈے کے نتیجے میں قرآن کریم صرف اخلاقی اور روحانی علوم کی کتاب قرار پائی۔ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو اس کے پس پشت ایک ایسا ہاتھ نظر آتا ہے جو ابتدا سے ہی قرآن مجید کی عالمی صداقت کو ماننے سے انکار کر چکا تھا۔ اس کے زہریلے پروپیگنڈے نے چند خام ذہن اور سادہ لوح مسلمانوں پر بھی اثر کیا۔ چنانچہ انہوں نے بھی اپنی سادہ لوحی اور کم علمی کی بناء پر درسِ خواندہ کو دہرانا شروع کر دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ سائنسدان خود انہیں مسلمان سائنسدانوں اور فلاسفروں کے خوشہ چین اور شاگرد ہیں جن کی سائنسی ترقی میں بڑا ہاتھ خود قرآنی تعلیمات کا ہے۔ انہوں نے قرآن سے استفادہ کی بنیاد پر انسانی تجربات اور تحقیقات کے نتیجہ میں بے مثل اصول پیش کر کے اہلِ دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ البتہ غیر مسلم سائنسدانوں کی توجہ صرف مادہ کی ظاہری شکل و صورت، بناوٹ، ترکیب اور خواص پر ہی رہی اور یوں غیر مسلم انسان تصویر کے خدوخال کی عمدگی اور حسن و جمال میں کھو کر خود ’’تصویر‘‘ بن گیا۔ مگر مصوّرِ حقیقی کے فنِ مصوّری کو داد و تحسین پیش کر کے خود کو اس کا بندہ و غلام نہ بنا سکا۔ کہ اس نے مادہ سے متعلق علوم میں تو کافی حد تک دسترس حاصل کر لی مگر اخلاقی و روحانی علوم سے بے بہرہ رہا۔ اسی خالص مادیت کے نتیجے میں بے خدا ترقی کو دو مرتبہ دو عظیم جنگوں کی ہولناکیوں اور فتنہ سامانیوں کا سامنا ہوا لیکن اس کے باوجود سامراج اپنی مادیت کو فکری محاذ پر مسلّط رکھنے کے لئے اس کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کے اذہان سے اس کتاب کی عظمت و افادیت محو کر دی جائے تاکہ مسلمان ایک رہنما اور منظم قوم کی صورت میں نہ اُبھر سکیں۔ ان کے اذہان میں یہ زہر بھی گھولنے کی