کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 27
نے فصلوں اور پودوں کو بطور خوراک استعمال کرنے پر اکتفاء نہیں کیا۔ اس کی عقل سلیم نے اسے بتایا کہ کپاس سے کپڑا تیار کیا جا سکتا ہے اور اس طرح انسان کی یہ بنیادی ضرورت بھی پوری ہو سکتی ہے۔ اب مسئلہ یہ پیدا ہو کہ کپاس سے کپڑا کیسے بنایا جائے؟ اس مسئلے کا حال انسان نے کھڈی سے کیا مگر یہ کھڈیاں روز افزوں آبادی کا ساتھ نہ دے سکیں اور انسان کے لباس کی ضروریات سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں۔ چنانچہ ٹیکسٹائل ملوں کا وجود عمل میں آیا۔ ٹیکسٹائل مل کیسے لگائی جائے؟ اس میں کون کون سی معدنیات استعمال ہو سکتی ہیں اور کون سی دھات سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہو سکتی ہے؟ اس کا متجسس ذہن مختلف تجربات و مشاہدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ لوہا اور فولاد اس سلسلے میں سب سے زیادہ کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب انسان لوہے سے اتنی بڑی خدمت لینا چاہتا تھا اس کے لئے اس کی ترکیب، ماہیت اور طبعی و کیمیائی خصوصیات سے آگاہ ہونا ضروری تھا۔ ایسے ہی دیگر ضروریات کی تکمیل اور مسائل کے حل کے لئے ایک ایسے علم کی ضرورت پیش آئی جو مادہ کی ترکیب، ماہیت اور خواص سے بحث کرے اسے کیمیا (Chemistry) کا نام دے دیا گیا جو سائنس کی اہم شاخ ہے۔
گویا انسانی ضروریات اور مسائل میں وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ جو بتدریج اضافے ہوتے رہے۔ ان کی تسکین و تکمیل اور حل کے لئے مختلف علوم، علم نباتات، علم حیوانات، علم کیمیاء، علم نجوم، علم طبیعات وغیرہ وجود میں آئے۔ ان علوم کو انسان سائنسی علوم سے تعبیر کرتا ہے۔ ایسے ہی علم سیاسیات، علم تاریخ، علم شہریت اور تمام دیگر معاشرتی و عمرانی علوم انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے انسانی کوشش و کاوش کا نتیجہ ہیں۔ لیکن علوم کی اس قدر بہتات اور فراوانی کے باوجود انسانی مسائل بدستور جنم لیتے رہے اور لیتے رہیں گے۔ اور ایسے علوم معرضِ وجود میں آئے اور آتے رہیں گے مگر یہاں ہمارے مد نظر وہ علوم ہیں جو سائنسی علوم گردانے جاتے ہیں۔ اور سائنس کی ہی شاخیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو اس قدر ضرورت مند بنا دیا کہ اس کی ضروریات نئی ضروریات کو اور اس کے مسائل نئے مسائل کو جنم دیں، تو اس قدادر مطلق نے ساتھ ہی ایک ایسی کتاب بھی بھیجی جو انسانی ضروریات کی تکمیل اور ہر دور میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل کرنے میں رہنمائی کر سکے اور اس کتاب کو ’’الکتاب‘‘ کانام دیا۔ قرآن میں ہے:
﴿آلمٓ۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.﴾