کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 26
سید مہر حسین بخاری۔ میانوالی قرآن مجید اور سائنس قرآن حکیم انسان کے لئے مکمل ہدایت ربانی ہونے کی وجہ سے اس کی اخلاقی و روحانی ترقیوں کا ضامن ہے اور بلاشبہ اس کی جملہ مادی اور جسمانی ضرورتوں کا کفیل بھی۔ اس لئے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’اگرچہ سائنس میں قرآن نہیں لیکن قرآن میں سائنس ضرور موجود ہے۔‘‘ کیونکہ موجودہ سائنس نے مادہ کا گہرا مشاہدہ اور اس پر غور و فکر کر کے ظاہری طور پر تو حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن اس کے گمراہ کن نظریات نے روحانی اور اخلاقی انحطاط کی پریشان کن صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس سے یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ مذہب اور سائنس باہم متضاد ہیں حالانکہ نظریاتی اختلاف صرف اس وجہ سے ہے کہ سائنسی نظریات قائم کرتے وقت خدائی ہدایت ’’قرآن حکیم‘‘ اور ’’سنت رسول‘‘ سے بے نیازی برتی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں لا دین فلسفہ ’’علمی ترقی‘‘ کے نام پر سامنے آتا ہے حالانکہ افکار و نظریات کے باب میں آخری رہنما صرف ‘’’وحی الٰہی‘‘ ہی ہو سکتی ہے۔ (مدیر) معاشرتی زندگی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات اور مسائل میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ ان ضروریات کی تکمیل اور مسائل کے حل کے لئے مختلف علوم و فنون وجود میں آئے۔ اس کی ایک عام فہم مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ انسان کی ایک بنیادی ضرورت ’’خوراک‘‘ تھی۔ اسے اس ضرورت کی تسکین پودوں سے حاصل ہوئی۔ اس نے شدت سے محسوس کیا کہ جب تک وہ پودوں میں موجود خوراک سے پورا پورا استفادہ نہیں کرتا اس کی یہ بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اس نے مختلف فصلیں اگائیں۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس امر کی ضرورت پیش آئی کہ فصلوں کو زیادہ اور بہتر طور پر اگایا جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ پودوں کی زندگی کا مربوط اور منظم مطالعہ کیا جاتا۔ چنانچہ انسان نے نباتات کی زندگی کا منظم اور مربوط طریق پر مطالعہ شروع کر دیا اور اس طرح ایک علم وجود میں آیا جسے ’علم نباتات‘ (Botany) کہتے ہیں۔ ایسے ہی اس نے محسوس کیا کہ کھانے کے ساتھ ساتھ اسے لباس کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس