کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 24
یہ اس بادشاہ کا حال ہے، جو شاہانہ دلچسپیوں اور ٹھاٹھ باٹھ جیسے خمار سے پاک اور منزہ تھے، لیکن جو بادشاہ اورحکمران اقتدار کے نشے میں چور ہو کر خدا کو بھی بھول بیٹھے ہیں، ان کا کیا حال ہو گا؟ اس کا اندازہ آپ خود فرما لیں۔
۵۔ وقال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یومًا لعبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مَا لَطَأبِکَ عَنِّیْ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ؟ قَالَ وَمَا ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ:
لَطَأبِکَ عَنِّیْ یَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ؟ قَالَ وَمَا ذَاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ:
انک اخرا صحابی لحو قابی یوم القیمۃ فَاَقُوْلُ مَا حَبَسَکَ عَنِّیْ؟ فَیَقُوْلُ:
المال: کنت محاسبا محبوسًا حتی الآنِ (رواہ محمد فی الاکتساب فی الرزق المستطاب)
وفی مسند احمد: یدخل عبد الرحمٰن بن عوفن الجنۃ زحفًا۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمان بن عوف رحمہ اللہ سے فرمایا:
اے عبد الرحمٰن! آپ کو مجھ سے پیچھے کس چیز نے رکھا ہے؟
وہ بولے: کیا بات ہے حضور!
آپ نے فرمایا: قیامت میں آپ سب سے بعد مجھ سے آکر ملیں گے تو میں کہوں گا کہ آپ کو مجھ تک پہنچنے سے کس چیز نے روکے رکھا ہے؟ آپ جواب دیں گے (حضور) مال نے! اب تک اس کے حساب کتاب میں گرفتار رہا ہوں۔
(اسے امام محمد نے اپنی کتاب الاکتساب فی الرزق المستطاب میں روایت کیا ہے)
مسند احمد میں یہ بھی روایت آئی ہے کہ حضرت عبد الرحمان بن عوف گھٹنوں کے بل چل کر بہشت میں داخل ہوں گے۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف عظیم صحابی ہیں جن کا تعلق عشرہ مبشرہ سے ہے۔ اور میری میں فقیری کی تھی۔ لیکن مال دار تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب کے بعد آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملیں گے کیونکہ حساب لمبا دینا پڑ جائے گا۔
جو لوگ مال دار ہونے کے ساتھ بے خدا بھی جیتے ہیں، ان کا کیا حشر ہو گا؟ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، واضح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جائز لطف و آرام سے بھی کتراتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ:
ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پینے کو پانی مانگا تو آپ کو شہد کا شربت پیش کیا گیا، فرمایا