کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 23
کیوں کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگوں کے مقدمے میرے پاس آتے ہیں، تو میں ان کے فیصلے کرتا ہوں۔ اور فریقین اس پر خوش ہو جاتے ہیں (اس لئے مجھے ابو الحکم کہتے ہیں) آپ نے فرمایا کہ: آپ کی یہ پوزیشن کیا ہی اچھی ہے، پھر فرمایا: تو ہاں آپ یہ بتائیں کہ آپ کے کتنے لڑکے ہیں؟ کہا جناب! شریح، مسلم اور عبداللہ! پھر پوچھا کہ ان میں سب سے بڑا کون ہے؟ کہا: شریح۔ آپ نے فرمایا تو پھر آپ ’’ابو شریح‘‘ ہیں! اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ آخری سمجھا جاتا تھا۔ گویا کہ اس کی رائے کو قانونی درجہ حاصل تھا اور لوگ اسے احکام کا ماخذ تصوّر کرتے تھے لیکن اسلام میں یہ پوزیشن صرف خدا کی ہے اور کسی کا نہیں، رسول کا مقام بھی ’تبیین‘‘ ہے ’’تشریع‘‘ نہیں ہے۔ گو اتباع کی حد تک اس ’’فرق‘‘ کو ملحوظ رکھنا ہمارا کام نہیں ہے تاہم عقیدے کی حد تک ہمیں اجمالاً یہ یقین رکھنا ہو گا کہ: حضور کا فریضۂ ’’تشریح‘‘ ہے ’’تشریع‘‘ نہیں ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس ذہنیت کی اصلاح فرما کر اس کی کنیت بدل دی۔ اتفاق سے جو بات تھی کنیت بھی ویسے بن گئی، یعنی اب اس پوزیشن ’’صورتِ حال کا تجزیہ‘‘ اور پھر اس کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلوں کی روشنی میں فتوےٰ دینا ہے اور بس! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی فرد یا اسمبلیوں کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ان کو ’’قانون ساز ادارۂ‘‘ یا ’’دستور ساز اسمبلی‘‘ کہنا جائز ہے۔ کیونکہ ان کے ذمے صرف ’’تبیین اور تشریح‘‘ ہے تشریع نہیں ہے۔ ۴۔ وَفِی الْاٰثَارِ۔ اِنَّ اٰخِرَ الْاَنْبِیَاءِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ دُخُوْلًا فِی الْجَنَّۃِ سُلَیْمَانُ عَلَیْہِ السَّلَام لِمُلْکِہ۔ روایات میں آیا ہے کہ: بہشت میں سب نبیوں کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) داخل ہوں گے کیونکہ انہوں نے بادشاہی کی تھی۔ گو انبیاء علیہم السلام بادشاہت کے باوجود، خدا کے عبد اور بے داغ فقیر ہوتے ہیں، تاہم یہ جھولا جھولنے کو ان کو مل ہی گیا۔ بس اتنی سی ارزانی کا یہ نتیجہ ہے کہ: بہشت میں وہ سب سے آخر میں جائیں گے۔ اس کے علاوہ ان کو حساب بھی دینا ہو گا اور وہ سارے ملک اور ساری ملت کا دینا ہو گا اور وہ کافی لمبا ہو گا۔ اس سے فارغ ہوں تو بہشت میں بھی جائیں۔ اس لئے دیر ہو جائے گی۔