کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 21
۱۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یَقُوْلُ:
یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْضَ وَیَطْوِی السَّمٰوٰتِ بِیَمِیْنِہ ثُمَّ یَقُوْلُ: اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ؟ (الصحیح للبخاری)
حضرت ابو ہریرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ:
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور اپنے داہنے ہاتھ میں آسمانوں کو لپیٹے گا پھر فرمائے گا: بادشاہ میں ہوں، دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟
اس سے مفصل روایت حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے، فرماتے ہیں، حضور کا ارشاد ہے: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے داہنے ہاتھ میں لے گا پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں جبابرہ، کہاں ہیں تکبر کرنے والے؟ پھر ساری زمینوں کو لپیٹ (کر) اپنے بائیں ہاتھ میں (لے گا) پھر فرمائے گا:
بادشاہ میں ہوں، جبابرہ اور متکبّر لوگ کہاں ہیں؟
کہنا یہ ہے کہ:
سچا بادشاہ وہ ہے، جس کی مٹھی میں یہ سب کچھ ہے، وہ بادشاہ کیسا بادشاہ جو چار الٹے سیدھے اور غلط سلط چند ووٹوں اور چند بندوں کے رحم و کرم اور تعاون کا نتیجہ ہو؟ یا وہ بادشاہی، کا ہے کی بادشاہی جس کی اپنی قسمت بھی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ کوئی بنائے تو بادشاہ ورنہ گدا۔ یہ تو چام کے دام چلانے والی بات ہوئی، بادشاہی کیسی؟ بہرحال یہ سب مجبور بندے ہیں، چلو پھر پانی میں یوں ابھر کر نہ چلیں کہ دیکھنے والے کو ہنسی آجائے۔ ہاں اگر حقیقی بادشاہ اور سچی بادشاہی کا نظارہ کرنا ہو تو، سچے خدا کو دیکھو، جس کی مٹھی میں زمین و آسمان اور مافیہا کی ہر شے ہے، اس لئے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس کے آخر میں فرمایا:
وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہ
انہوں نے اللہ کی قدر نہ جانی!
۲۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمْ اَخْنَی الْاَسْمَآءِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ اللّٰہِ رَجُلٌ یَّسَمَّی مَلِکَ الْاَمْلَاکِ (الصحیح للبخاری)