کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 16
عہد سے مراد کبھی وہ صلاحیت اور استعداد ہوتی ہے جو اللہ نے عقلوں میں ودیعت فرمائی ہے، کبھی وہ احکام ہوتے ہیں جو کتاب و سنت کی طرف سے عائد کیے جاتے ہیں، بعض وہ ذمے ہوتے ہیں جو انسان خود اپنے اوپر لازم کرتے ہیں جیسے نذریں اور بعض وہ عہد ہوتے ہیں جو معاہدہ کی شکل میں اختیار کیے جاتے ہیں۔ گو یہاں یہ سب ممکن ہیں تاہم، ہم مؤخر الذکر کی تفصیلات آپ کے سامنے رکھتے ہیں کہ یہ زیادہ معروف ہے۔ میثاق اور معاہدات قرآن و حدیث میں ان معاہدات کی کچھ تفصیل آگئی ہے جو بنی اسرائیل نے خدا سے کیے تھے۔ اللہ کی غلامی اور لوگوں سے حسنِ معاملہ: حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے ایک یہ عہد لیا تھا کہ توحید پر قائم رہیں، صرف اس کی عبادت اور غلامی کریں، والدین اقربا، یتیموں، مسکینوں سے اچھا سلوک اور معاملہ کریں، لوگوں سے اچھی گفتگو کریں، کہنا ہو تو ان سے اچھی بات کہیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہا کریں۔ ﴿وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ وَبِالوَالِدِیْنَ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَقُوْلُوْا لِلْنَّاسِ حُسْنًا وَاَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃ وَاٰتُوْا الزَّکوٰۃَ ﴾(پ۱. بقرہ. ع۱۰) انبیاء پر ایمان اور ان سے تعاون: ان کا یہ بھی معاہدہ تھا ہ وہ اللہ کے رسول پر ایمان لائیں گے اور ان سے تعاون کریں گے۔ ﴿وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُ﴾ (پ۶. المائدہ ع۳) ﴿وَلَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ وَاَرْسَلْنَا اِلَیْھِمْ رُسُلًا﴾ (پ۶. المائدہ ع۱۰) ﴿وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّکُمْ وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ﴾ (پ۲۷. الحدید. ع۱) احکامِ الٰہی کی سچی پابندی: جو آسمانی کتاب ان پر نازل ہوئی ہے، عہد لیا گیا تھا کہ وہ اس کا دامن تھام کر رکھیں گے اور اس کے اسباق بھولیں گے نہیں۔ ﴿وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْر خُذُوْا مَا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (پ۱. بقرہ ع۸) خدا کی طرف صرف حق کی بات منسوب کریں: جیسے لوگوں کا طریقہ ہے کہ جو بات دل کو اچھی لگی یا جس سے انسان کی اپنی غرض متعلق ہوئی اسے اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں تاکہ اسے قبولِ عام