کتاب: محدث شمارہ 46 - صفحہ 15
وَاَوْفُوْ بِعَھْدِیْ۴؎ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ۵؎ وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنَ.
اور تم اس اقرار کو پورا کرو جو (تم نے) ہم سے کیا ہے ہم اس اقرار کو پورا کریں گے جو (ہم نے) تم سے کیا ہے اور ہم ہی سے ڈرتے رہو۔
_______________________________
وہ بنی اسرائیل کے سلسلے سے وہ بول اور فیصلے ہیں جو بنی اسرائیل کے مفاد اور اچھے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ امامت اور توحید کی امانت کی وراثت ہے جو بہرحال ایک دفعہ ان کو دے دی گئی۔ کہاں ان کی یہ حالت کہ: ان کا ہر نومولد بچہ چھری تلے رکھ دیا جائے، ان کی بچیوں کو اپنی ضیافت طبع کے لئے زندہ رہنے دیا جائے ، بات افراد کی نہیں پوری قوم کی ہے کہ اسے غلامی کے شکنجے میں یوں کس کر رکھ دیا گیا تھا کہ وہ حاکم قوم کے جانوروں کو بھی غلام ہو کر رہ گئی تھی اور اب یہ حالت ہے کہ وہی فرعون ان کے سامنے ذلّت کی موت مر رہا ہے، کنعان کی سلطنت ان کی راہ دیکھ رہی ہے، نخرے یہ ہیں کہ جنگلوں میں بھی جہاں کچھ نہیں ملتا وہاں خدا ان کا میزبان ہے۔ پکا پکا یا من سلویٰ اتر رہا ہے، اور رہنے کو خدائی سائبان سایہ فگن ہے، الغرض: غلامی کی ذہنیت اور کوفت دور کرنے کے لئے اب (۱) غلامی کے بدلے شاہزادگی جیسے چونچلے ہیں (۲) غلامانہ بیگار اور محنت کے بجائے ان میں مجاہدانہ اسپرٹ پیدا کر کے ان کو اپنی دنیا آپ بنانے کا خوگر بنایا جا رہا ہے۔ بس ان سے کہا جا رہا ہے کہ: اے بنی اسرائیل! کچھ تو سوچو! میرے ان احسانوں کو ہی یاد کرو جو میں نے تم پر کیے تھے۔
۴؎ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ (مجھ سے جو عہد اور قول و اقرار ہے، تم پورا کرو) وَفٰی کے معنی (پورا کیا) کے ہیں اور اَوْفٰی کے معنی ہیں ’’پورا پورا دیا ہے‘‘ اور وَافی پوری چیز کو کہتے ہیں، جس میں کمی بیشی قطعاً نہ ہو۔ وفّٰی (پورا کیا اور پورا پورا چکا دیا) تَوفّی (روح کو قبض کیا اور مدت پوری کی) متوفّی (پوری مدت کروں گا) الغرض: و، ف، ی کے مادے میں ’’پورا ہونا‘‘ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: مجھ سے جو قول و قرار کیا ہے، اسے پورا کرو، کمی بیشی سے اس کی روح کو داغ دار نہ کرو۔
عھد۔ عَہد کے اصلی معنی ذمّہ، ضمان، وصیت، پیمان، میثاق شاہی فرمان اور دوستی کی پیہم نگہداشت کرنے کے ہیں، یعنی وہ بات جو فریقین نے باہم طے کی ہے جس کا تصور ان کے ذہنوں میں ہے۔ اس کی پوری پوری حفاظت کرنے کو کہتے ہیں۔ عہد اور میثاق کو مزید مؤکد کرنے کے لئے بعض اوقات حلف بھی اُٹھاتے ہیں۔ اسے ’’مؤکد عہد یا میثاق اور حلف یا محالفہ بھی کہتے ہیں۔ علماء لکھتے ہیں کہ