کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 9
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ اس کا اقبال مرحوم نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رُو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے یہ وہ اسلامی مساوات ہے ، جس کا ’’مساوات محمدی‘‘ کے نعرہ باز حلیہ بگاڑ رہ ےہیں ۔ جو لوگ ’’خدائے یکتا‘‘ سے اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں ، وہ ’’بیم و رجا‘‘ کے ایک ایسے عالم میں داخل ہوجاتے ہیں ، جو خدا کے حضور شرف باریابی حاصل کرنے کے لیے شرط اوّل ہے ، اگر ہم یہ کہیں کہ ’’عہدہ‘‘ کا اصلی مقام یہی ’’عالم ورجا‘‘ ہے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہیں ہوگا۔ ’’غیر کی غلامی‘‘ بڑی لعنت اور ابن آدم کی حد درجہ کی تحقیر و تذلیل ہے۔ اگر اس مقام سے اپنے کو کوئی شخص کماحقہ اونچا رکھ سکتا ہے تو وہصرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو ’’کامل توحید‘‘ کا شناسائے راز ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ غیر کی غلامی کے چرکوں سے پاک اور محفوظ رہنے کی توفیق صرف ’’سچے اور پکے موحد‘‘ کو حاصل ہوتی ہے ، تو اس میں ذرہ بھر بھی جھوٹ کا شائبہ نہ ہوگا۔ دور حاضر میں ’’غیر کی غلامی‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ ، دوسری قوم کی غلامی اختیار کی جائے مگر ایک موحد کے نزدیک یہ بھی غلامی ہے کہ کوئی اپنے ہم وطنوں کا غلام ، اپنی قوم کاغلام ، اپنی برادری اور مقتداؤں کا غلام یا نفس و طاغوت کا غلام ہو یہ سب غلامیاں ، انسانی شرف و مزیت کی منافی بلائیں ہیں ، جن سے صرف وہ ’’بندہ حر‘‘ آزاد ر سکتاہے جو ان سب کاباغی اور اپنے رب کا’’غلام بے دام‘‘ ہوتا ہے۔ اللھم اجعلنا منھم ۔ آمین۔ ٭٭٭