کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 8
کسی کے ہو، زیادتی ہے ، جو اس زیادتی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا انجام خطرہ میں ہے۔ ﴿أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ ﴾ (پ۷ انعام ع۸) ’’سینئے! حکم اسی کا ہے اور وہ سب سے زیادہ چیک کرنے والا ہے۔‘‘ نوع انسان کی وحدت کا مسئلہ ، ایک اہم ضرورت ہے ، لیکن وہ ’’تصورتوحید‘‘ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔مآخذ اور مراجع جدا جدا رہیں اور ’’وحدت‘‘ کی تلقین بھی جاری رہے ، ایک اَن ہونی آرزو ہے یا شیخ چلی کی ایک بڑ۔ اگر دنیا کو بچانا ہے ،اور یہ چاہتے ہو کہ ، انسان ، نوع انسان کاشکاری نہ رہے تو ’’قرآنی توحید‘‘ کی آغوش میں ہی پناہ ملے گا۔ ورنہ اس کا وہی حشر ہوگا جو ہورہا ہے۔ صرف نوعی یا ملّی شیرازہ بندی کے لیے ہی تصور توحید ضروری نہیں ہے بلکہ ہر فرد کے انفرادی عمل کی زرخیزی کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے کو ایک ہی ہائی کمان کی رہنمائی کے تابع رکھے ، ورنہ اس کی یہ زندگی بھی اختلاف اور تضاد کی بھینٹ چڑھ کر رسوا ہوجائے گی۔ منقسم توجہ اور اعمال حیات کے جداگانہ مرکز ثقل کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہی برآمد ہوئے ہیں اور ایسے ہی برآمد ہوتے رہیں گے۔ توحید کامل میں انسان جتنا راسخ ہوتا ہے ، اتنا ہی اسے ’’حضور قلب‘‘ کی دولت حاصل ہوتی ہے ، خدا سے اس کا رابطہ قائم رہتا ہے ، اور قرب و وصال کی منزلیں آسانی سے طے ہوتی رہتی ہیں ۔ جو لوگ تصور توحید میں خام ہوتے ہیں وہ ’’وساطتوں اور وسیلوں ‘‘ کے چکروں میں پڑ کر عموماً ضائع ہوجاتے ہیں ، جن کو خدا تک پہنچنے کاذریعہ سمجھ کر سینہ سے لگاتے ہیں ۔ آخر پتہ چلا کہ جسے سجن جانا ، وہی دشمن جاں نکلے۔ باب توحید میں رسوخ کا ایک فائدہ ، پاکیزگی اور طہارت بھی ہے ، کیونکہ جن کو خدا سے ایک گونہ تعلق کی دولت حاصل ہوجاتی ہے وہ جسم و روح اور فکر و عمل کی صفائی اور پاکیزگی کا بالالتزام ، التزام بھی کرتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی اپنے کو اس کے حضور میں حاضر محسوس کرتا ہے ، وہ تمام آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک رکھنے کا بھی ضرور اہتمام کرتا ہے۔ دُکھ سُکھ اور بھوک ننگ میں ایک دوسرے کے کام آنے کے لیے اس ’’وحدت‘‘ کی نمود ضروری ہے ، جو ’’توحید‘‘ کے زیر سایہ تشکیل پاتی ہے ، کیونکہ اس وقت بات ایک ’’گھروندا‘‘ کی سی ہوجاتی ہے ، بتکلف نباہنے کی تہمت کا شائبہ باقی نہیں رہتا۔ بلکہ ایک دوسرے کی خاطر اپنے خون کی قربانی یوں پیش کرتے رہے جیسے جام مے ایک بادہ خوار دوسرے بادہ خوار کو۔ (غزوہ یرموک) لیکن ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تانچشی تصور توحیدکا یہ اعجاز ہے کہ نسل ووطن ، رنگ اور زبان کے امتیازات یوں مٹ گئے کہ ،