کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 7
رہی ہے)
صد نوا داری چوں خوں درتن رواں خیز و مضرابے بہ تار اورساں
(اے مسلم! تو اپنے جسم میں خون کی مانند سینکڑوں نغمے رواں رکھتا ہے۔ اُٹھ اور اپنے ساز وجود کے تاروں پر توحید لگا)
زانکہ در تکبیر راز بودتست حفظ و نشر لا الہٰ مقصود تست
(چونکہ تکبیر ہی میں تیری بقائے ہستی کا راز ہے۔لہٰذا لا الہٰ کی حفاظت و اشاعت ہی تیرا مقصد حیات ہے)
تانہ خیزد بانگ حق از عالمے گر مسلمانی! نیا سائی دمے
(جب تک لا الہٰ کی صدائے حق تمام دنیا سے بلند نہ ہو۔ اگر تو مسلمان ہے تو ایک دم کے لیے بھی دم نہ لے)
(جوہر اقبال)
یہ تو اس ’’ذات یکتا‘‘ کی وہ خصوصیات توحید ہیں کہ ان کو کوئی مانے یا نہ مانے ، اس کو کوئی فرض کرے یا نہ کرے ، اس کے لیے ثابت ہیں ، بلکہ یہ اس وقت بھی تھیں ، جب کوئی نہیں تھا ، اس وقت بھی رہیں ، جب ’’کوئی آگیا‘‘ اور اس وقت بھی بدستور رہیں گی ، جب کوئی نہیں رہے گا ، سدا سے ہے ، سدا رہے گا ، رہے نام اللہ کا ، بس! باقی ہوس!
اس کے علاوہ ’’کامل توحید‘‘ کا اعتراف اور تصور صرف اس ملنے میں نہیں ہے کہ : خدا کے حضور میں پرخلوص ، ’’ہدیہ عقیدت‘‘ پیش کیا جائے ، بلکہ اس کےساتھ ساتھ کائنات کے مصالح ، عواقب ، مدارج اور مآل کا انحصار بھی اسی ’’یقین محکم‘‘ پر ہے۔ خاص کر کائنات انسانی کی سلامتی ، اس کی عافیت اور آخرت کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کامل توحید کا پرخلوص اعتراف اور احترام ضروری ہے۔ انسان ، خدا کی ایک عظیم دریافت اور اس کی تخلیق کا ایک قابل احترام شاہکار ہے ، اس کی نوعی خصوصیات اور مقام و مرتبہ کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کے سوا اور کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾
مگر اس کو یہ مقام اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک وہ خدا کے اقتدار اعلیٰ کی غیر منقسم وحدت کا قائل نہ ہو اور یہ ایک واقعہ ہے کہ اس کے اقتدار اعلیٰ میں کوئی بھی اس کے شریک اور مزاحم نہیں ہے۔﴿ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ ﴾ (بنی اسرائیل ع۱۲)﴿ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ﴾ (انعام ع۷)کیونکہ جس نے پیدا کیا ہے حکم بھی اسی کا چلے گا۔ ﴿أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ﴾ (اعراف ع۷)بنائے وہ اور حوالے