کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 6
قوت سلطان و میر از لا الہ . ہیبت مرد فقیر از لا الہ تا دو تیغ لاو الا داشتیم ماسی اللہ رانشان نگذاشتیم دارم اندر سینہ نور لا الہ در شراب من سرور لا الہ (بعض بادشاہ اور امیر کی قوت صرف توحید سے ہے اور ایک مرد فقیر کی سطوت بھی توحید سے ہے جب تک ہم نفی باطل اور اثبات حق کی دو تلواریں رکھتے تھے ہم نے دنیا میں غیر اللہ کا نام و نشان نہ رہنے دیا۔ میں اپنے سینے میں نو رالہٰ رکھتا ہوں اور میری شراب زیست سرور لا الہ سےمعمور ہے) این کہن پیکر کہ عالم نام اوس .... ز امتزاج امہات اندام اوسف (یہ فرسودہ پیکر جسے دنیا کہتے ہیں اس کا جسم ’’عناصر اربعہ‘‘ کی ترکیب سے پیدا ہوا ہے) صد نیستاں کاشت یایک نالہ رست صد چمن خوں کرد تا یک لا لہ رست (اس نے سینکڑوں نیستاں بوئے تب کہیں ایک نالہ پیدا ہوا اور سینکڑوں چمن خون کیے تب کہیں ایک گل پیدا ہوا) نقشہا آورد و افگند و شکست تابہ لوح زندگی نقش تو بست (دنیا بے شمار نقش لائی ، انہیں تشکیل دی اور پھر توڑ دیا حتیٰ کہ لوح زندگی پر تیرا نقش ثبت کیا) نالہ ہاد رکشت ، جاں کاریدہ است تانوائے یک اذاں بالیدہ است (اس نے نوع انسانی کی کشت روح میں بے شمار نالے بوئے اور ان سب سے ایک صدائے اذاں پیدا ہوئی) مدت پیکار با احرار داشت باخداوندن باطل کار داشت (دنیا عرصہ دراز تک مردان آزاد سے محو پیکار رہی اور اسی طرح پیروان باطل سے بھی مصروف جنگ رہی) تخم ایماں آخر اندر گل نشاند باز بانت کلمہ توحید خواند (اور آخر کار تیری خاک جسد میں ایمان کا بیج بویا اور تیری زبان سے کلمہ توحید کہلایا) نقطہ ادوار عالم لا الہ انتہائے کار عالم لا الہ (پرکار عالم کے تمام چکر لا الہ کے گرد گھومتے ہیں اور دنیا کے مکمل نظام کی انتہا لا الہٰ ہے) نغمہ ہائش خفتہ درساز وجود جو مدت اے زخمہ درساز وجود (توحید کے نغمے ہمارے ساز وجود میں سوئے پڑے ہیں ، اے مضراب! توحید تجھے ساز و جود ڈھونڈ