کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 5
ہے اور کوئی نہیں !
کچھ کرنے اور سوچنے سے پہلے سب کو یہ سوچنا ہے کہ:
اس کی مرضی کیا ہے؟ پھر اس کی مرضی کے بعد اس میں کسی اور کی مرضی کا ٹانکانہ لگائے۔
رشتہ درگرد نم افگندہ دوست
می کشد ہر جکہ خاطر خواہ اوست
مشہور ادیب اور بلندپایہ مترجم قرآن ، شمس العلماء حضرت مولانا نژیر احمد بن مولانا سعادت علی (ف۱۳۳۱ھ؍۱۸۳۶ء)مرحوم نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے نویں سالانہ جلسہ میں ’’توحید‘‘ کے عنوان پر ایک تقریر کی تھی جو بعد میں ۱۸۹۴ء میں مفیدعام پریس لاہور میں طبع ہوئی ، اس میں تقریر کرتے ہوئے جو کہا ، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے ، اس میں وہ فرماتے ہیں :
’’جب اس طرح اسباب ظاہر کو اور اسباب ظاہر کی تخصیص بھی کیوں کروں ؟ بلکہ ’’ماسوی اللہ‘‘ کو انتظام دنیا سےبے دخل محض سمجھ لو گے ، تب تم کو ’’ھو الاول والا خر والظاہر والباطن‘‘ کے معنی معلوم ہوں گے۔‘‘
اقبال مرحوم نے ’’توحید‘‘ کا جو راگ الاپا ہے ، دنیا نے اس کامطالعہ نہیں کیا۔ دراصل اقبال مرحوم کو اس لیے یہ شکوہ بھی تھا کہ لوگ ، اسے ایک غزل کواہ سمجھتے ہیں ، ان کے پیام کو نہیں سمجھتے ، واقعی بات وہی بن گئی ہے۔ اقبال کے نام پر جتنا کاروبار ہورہا ہے ، وہ اسی امر کی غمازی کرتا ہے کہ لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ، بس اس کا کاروبار ہی کرتے ہیں ۔ انا للہ۔
اقبال کا پیام توحید یہ ہے:
اے پسر! ذوق نگاہ از من گیر سوختن در لا الہ از من بگیر
لا الہ گوئی؟ بگواز روئے جاں تاز اندام تو آید بوئے جاں
مہر و ماہ گرد و ز سوز لا الہ دیدہ ام ایں سوز رادر کوہ وکہ
ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست لاالہ جز تیغ بے زنہار نیست
(اے بیٹا! ذوق نظر مجھ سے حاصل کر اور سوز لا الہ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ اگر تو لا الہ کہتا ہے تو دل سے کہہ تاکہ تیرے جسم سے روح کی خوشبو آئے۔ سورج اور چاند بھی سوز لا الہ سے گردش کررہے ہیں اور میں نے اس کی حرارت ہر چھوٹی بڑی چیز میں دیکھی ہے۔ یہ دو حرف لا الہ محض ورد کرنے کی چیز نہیں یہ تو باطل کے خلاف ایک بے پناہ تلوار ہے)