کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 48
(۳) راہ نجات (سورہ العصر کی روشنی میں ) : جناب ڈاکٹر اسرار احمد صفحات : ۳۶ قیمت : درج نہیں شائع کردہ : ایچی سن کالج، لاہور سورہ العصر قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے ، مگر دریا درکوزہ کے مصداق کیا ہے۔ پہلے مختصر سی تمہید بیان فرمائی ہے، پھر سورہ کا اجمالی مفہوم ذکر کیا ہے۔اس کے بعد سورہ کے ایک ایک لفظ کی تفسیر او رتوضیح کی ہے۔ جو خاصی دلنشین ہے۔مثلاً والعصر کے کیا معنی ہیں ، خسران کسے کہتے ہیں ، ایمان کا مفہوم کیا ہے۔عمل صالح کی حقیقت کیا ہے، ایمان اور عمل صالح کاباہمی تعلق کیا ہے۔ تواصی، حق، صبر او ران کے مابین باہمی ربط کیا ہے، ایک ایک کو کھول کر بیان کیا ہے جونہایت ہی بصیرت افروز ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ اس سورت میں نجات کی کم از کم شرائط بیان ہورہی ہیں او راس کے ناگزیر لوازم کاذکر ہے نہ کہ کامیابی کی بلند ترین منازل یا فوزوفلاح کے اعلیٰ مراتب کا۔(ص:۱۱) موصوف کا یہ نقطہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں ، ہمارےنزدیک یہ چاروں شرائط ہر قسم کی نجات کی ضامن ہیں ۔ شاید موصوف کو مغالطہ ’’الا‘‘ کے استثناء سے لگا ہے۔ اگر آپ مزید غور فرمائیں گے تو یہ اغلاق خود بخود دور ہوجائے گا۔ آگے چل کر اپنے ایمان او رعمل پر روشنی ڈالی ہے، جس سے یہ واہمہ محسوس ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر ایمان نہیں رہتا، لیکن اس حد تک تو ہم ان سے اتفاق کرسکتے ہیں کہ ایمان کی کمی بیشی میں عمل کو بڑا دخل ہے، لیکن عمل سے ایمان نہ رہے یا ایمان اور کفر کے مابین کوئی تیسری بات ہوجائے، اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ مسلک نہیں ہے بلکہ معتزلہ اور خوارج کانظریہ ہے۔ اس اندیشے کو ہم نے ’’واہمہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے کیونکہ مضمون کی عبارت کچھ زیادہ صاف نہیں ہے، ورنہ جہاں تک صحیح نظریہ ہے اس سلسلے میں ہمیں موصوف سے حسن ظن ہے۔ رسالے میں جہاں کہیں حدیث نقل فرمائی ہے،اس کا حوالہ نہیں دیا۔ ٭٭٭