کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 46
کو عالم عرب کا پڑھا لکھا طبقہ بھی محسوس کرتا تھا۔چنانچہ عرب کے اسلامی ادیب علی طنطاوی نے اخوان المسلمون کے مشہور مجلہ ’’المسلمون ‘‘ میں علی میاں کے نام ایک کھلا خط شائع کیا کہ آپ عالم عرب کو علامہ اقبال سے روشناس کرائیں ۔ اس کے بعد آپ نے المسلمون میں اس سلسلے کے یکے بعد دیگرے مضامین شائع کیے جو بعد میں ’’ردائع اقبال‘‘ نامی کتاب کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کاعلامہ شمس تبریز نے ترجمہ کرکے ’’نقوش اقبال‘‘ کےنام سے اُردو خوان طبقہ کو پیش فرمایا ہے: ترجمہ کیا ہے، اس پر اصل کاگمان ہوتا ہے۔ جزاہم اللّٰہ ۔ علامہ اقبال ایک عظیم فلسفی شاعر او راسلام کے سلسلے میں (جہاں تک وہ سمجھ سکے )ان کے جذبات نہایت مومنانہ او رمخلصانہ تھے۔ مگر اس کے باوجود ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ اس سلسلے میں ان کی بعض کمزوریاں بھی تھیں جن کابرملا اعتراف کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ ان سے پوری طرح اتفاق کرنا مشکل ہے۔ تاکہ آنے والی نسل انہیں ’’مجتہد اور سند‘‘ نہ بنالے او رجو امور محل نظر ہیں ، وہ ان کو وحی آسمانی تصور نہ کرلے۔ مگر افسوس! اقبال پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ، انہوں نے اس ضرورت او راحتیاط کااحساس نہیں کیا۔ حضرت علی میاں کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، یہ فریضہ بھی بالآخر ان کو ہی ادا کرنا پڑا ہے اور اس سلسلے میں اب تک جو کمی چلی آرہی تھی، اس کو بھی پورا کردیا ہے۔ جزاہم اللّٰہ خیراً چنانچہ موصوف علامہ اقبال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں اقبال کو معصوم و مقدس ہستی او رکوئی دینی پیشوا اور امام مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ میں ان کے کلام سے استناد او رمدح سرائی میں حد افراط کو پہنچا ہوا ہوں جیساکہ ان کےغالی معتقدین کا شیوہ ہے..... اقبال کے یہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے، بعض پرجوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو ان سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں او راس کے علوم و حقائق تک ان کے سوا کوئی پہنچا ہی نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر دور میں اس کا قائل رہا کہ وہ اسلامیات کے ایک مخلص طالب علم رہے اور اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے۔‘‘ (نقوش اقبال:ص۲۹) اگر حضرت علی میاں اس مرحلے پر اس کا اظہار نہ کرتے تو یقیناً خلاف توقع بات ہوتی او روہ عالم عرب کو ایک عجیب غلط فہمی میں ڈالنے کاموجب بنتی ۔ ہم اقبال کے پاکستانی او رہندی قصیدہ پڑھنے والوں سے بھی یہ درخواست کریں گے کہ وہ بھی مندرجہ بالا سطور کا بالخصوص مطالعہ فرمائیں ۔ اقبالیات کے شیدائیوں کا سلسلہ نہایت طویل ہے مگر مقلدانہ انداز کے زیادہ ہیں ، جو قدر دان