کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 43
کوششیں ہوئی ہیں ان میں ہمارا کتب تفسیر نے بڑا اہم کردار ادا کرلیا ہے۔‘‘ اس کامطلب یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے تمام مفسرین ومحدثین و علماء و فضلا نے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ اپنی تمام عمر اس کوشش میں صرف کردی ہےکہ لوگوں کو اسلام سے برگشتہ اور متنفر کیا جائے۔ مولانامودودی کی تفسیر میں بھی اکثر و بیشتر انہیں عقائد و خیالات کا اظہار ہے جو اسلاف مفسرین نے تفہیمات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے اخذ فرما کر اپنی تفاسیر میں درج فرمائے۔ اس لیے طلوع اسلام کی جماعت یہی کہتی ہے کہ ان کی تفسیر نے بھی لوگوں کو اسلام سے برگشتہ اور متنفر کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مولانامودودی کی تفسیر پر پانچ اعتراضات ہیں جن کی وجہ یہ ہے کہ: ۱۔ ہارون و مارون کا قصہ لغو ہے۔ ۲۔ حضر ت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ رکھ کر انہیں روکنے کی تدبیر جو تفاسیر میں مذکور ہے وہ پیغمبر پر فریب دہی کا الزام ہے۔ ۳۔ ضعیف و ناتواں شخص کو جس کے شفا پانے کی امید نہ ہو سو دُرے مارنے کی بجائے سو تیلیوں کو ایک بارمارنے کا حکم مضحکہ خیز ہے۔ ۴۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک شخص کو یہ کہنا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ایک پیغمبر کی بداخلاقی اور بدکرداری کی دلیل ہے۔ ۵۔ رسول اللہ پر جادو (معاذ اللہ) اس کا جواب یہ ہے کہ ہارون و ماروت کا قصہ لغو نہیں ہے۔ جس طرح سےمستند تفاسیر میں بتایا گیا ہے اس پر کوئی شرعی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا اعتراض شیطان کی تخلیق پر وارد ہوسکتا ہےجس طرح شیطان کی تخلیق سے انسانوں کی آزمائش مقصود تھی اسی طرح ہاروت و ماروت کا دنیا میں آنا بھی آزمائش کے لیے تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کے سامان میں کٹوار رکھنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا درآنحالیکہ یہ خود بھائی کے علم سے ہوا جیسا کہ مودودی صاحب نے تفسیر میں بتایا ہے۔ مریض یا ضعیف انسان جس کو سزا دینی مقصود ہو او روہ اس سزا کا تحمل نہ کرسکتا ہو تو اسے معاف ہی کرنا پڑے گا ۔ تنکوں سےمارنا محض ایک احترام قانون ہے اور ایسا کرنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو دیا تھا۔ مضمون نگار نے اس کامذاق اڑایا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ ایسی