کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 42
ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ وہ صرف تین نمازوں او رنو روزوں کی فرضیت کا قائل ہے بلکہ وہ تو پورے نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ و صوم کو مرکز ملت کے فیصلہ کا تابع تصور کرتا ہے۔ اب ان دونوں میں سے کون سچا او رکون جھوٹا ہے۔اس کا فیصلہ قارئین کرام خود کرلیں ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اس رسالہ کے دوسرے مضمون کا عنوان ’’حج پر قربانی کے بارے میں علمائے الجزائر کافتویٰ‘‘ ہے لیکن مضمون میں صرف علامہ الشیخ البشیر الابراہیمی کاذکر ہے۔ طلوع اسلام کی بدقسمتی سے یہ فتوے بھی باوجود تلاش بسیار کے دستیاب نہ ہوئے اور جب تک یہ فتوے ہی دستیاب نہ ہوں اس پر کوئی رائےزنی نہیں کی جاسکتی۔ قیاس یہ ہے کہ ممکن ہے علامہ موصوف نے ایسا کوئی فتویٰ ان عازمین حج کے لیے دیا ہو جو مکہ معظمہ یا اس کے انواع میں اقامت رکھتے ہوں ۔ ان پرقربانی فرض نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ ایسے اشخاص کو قربانی کی بجائے نقد رقم غرباء مساکین میں تقسیم کرنے کی ہدایت فرمائی ہو او راس پر عمل رہا ہو۔ چونکہ طلوع اسلام کی نو پید جماعت قربانی میں احراق دم کو واجب نہیں سمجھتی اس لیےاس حکم سےغلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہیہے۔ والا اس عاجز نے حال میں علامہ عبدالرحمٰن الجزیری کی صحیح کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ کاترجمہ کیا ہے جوشائع ہوچکی ہے اس میں کہیں ایسے فتوے کا سراغ نہیں ہے ۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر اگر الجزیرہ کا کوئی عالم ایسافتویٰ دے بھی دے تو طلوع اسلام والوں کو اس پر بغلیں بجانا حماقت ہے کیونکہ اس کو جمہور ملت اسلامیہ یاکتاب و سنت کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔ تیسرا مضمون پرویز صاحب کی تقریرپر مشتمل ہے۔ اس ا صرف وہ حصہ قابل قدر ہے جس میں انہوں نے سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کے حامیوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔اس کے علاوہ جو کچھ بھی کہا ہے اس میں کچھ تو اشتراکی اصول کی حمایت او رکچھ حسبنا کتاب اللہ کی حمایت ہے جن کی تان آخر کار انکار حدیث ٹوٹتی ہے ۔ کیونکہ ان کے نزدیک احکام و ارشادات نبوت کی بجائے امت کے لیے عملی پروگرام مرتب اور متحق کرنے کا حق اسلامی مملکت کے لیےمخصوص ہے او راسلامی مملکت سے ان کی مراد ’’وہی مرکز ملت‘‘ کاناشد فی تصور ہے، جسے ہر گو نہ عبادات اسلامی تک میں ردوبدل کااختیار حاصل ہو۔ چوتھامضمون مودودی صاحب کی تفسیر کی چند جھلکیاں ہیں ، اس مضمون کے آغاز ہی میں صاحب مضمون نے یہ بتا دیا ہے کہ ’’دنیا کو اسلام سے برگشتہ ہی نہیں بلکہ متنفر کرنے کے لیے دانستہ یا نادانستہ جو