کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 4
کے نام سے یاد فرمایا ہے یہ کتنا ہی بھولا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ک ہاگر ’’انسانیت بے داغ‘‘ ہو تو یہ ذمہ داری اس کے لیے غذا بن جاتی ہے۔ جب یہ داغدار ہوجاتی ہے تو پھر رو دھو کر ہی گذرتی ہے۔ تکلیف کاوزن ’ّداغدار انسانیت ، محسوس کرتی ہے ، بے داغ انسانیت کے لیے ’ّشیر مادر‘‘ سے بھی زیادہ خوشگوار چیز ثابت ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان ،قدرت کی ایک عظیم دریافت ہے جس کی مثال سے ’’مادر گیتی‘‘ کی آغوش خالی ہے ، مگر وہ کتنے ہیں ، جو اپنے اس ’’مقام رفیع‘‘ کا احساس بھی کرتے ہیں ۔؟ بہرحال جہاں یہ ایک ’’عظیم بار امانت‘‘ ہے ، وہاں یہ ایک عظیم کردار بھی ہے ، مگر کارے دارد! اس لیے اقبال کو کہنا پڑا۔ چوں می گو یم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ را توحید لا الہ الا اللہ کی وہ روح ہے جو نفی و اثبات کا حاصل ہے ، ایک طرف تو یہ اذعان اور اعلان ہے کہ: اور کوئی نہیں ! دوسری طرف یہ نعرہ بھی ہے کہ : صرف اللہ ہی اللہ ہے! اس نعرہ کی لاج رکھنا ، مسجود ملائکہ کے لیے تو ممکن ہے ، ہما شما کے لیے تو یہ ایک مجذوب کی بڑ ہے۔ اگر ایک شخص ’’اور کوئی نہیں ہے‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اللہ ہے‘‘ کا قائل نہیں ہے۔ یا ’’صرف اللہ ہی اللہ ہے‘‘ کے ساتھ ’’اور کوئی انہیں ہے‘‘ پر یقین نہیں رکھتا ، تو ظاہر ہے ، وہ اور جو کچھ کہلانا چاہیے ، کہلا سکتا ہے ، لیکن موحد نہیں کہلا سکتا۔ توحید کے سمجھنے کے لیے ، اس کے تین پہلوؤں کا مطالعہ پہلے نہایت ضروری ہے۔ ٭ اللہ کی ذات والا صفات میں ’’ترکیب اور دوئی‘‘ کے تمام ’’اعتبارات اور شائبے‘‘ بالکلیہ معدوم ہیں ۔ وہ تجزی اور تکثر کا کوئی محل اور مذکور نہیں ہے۔ ٭ زندگی کے جتنے شئون ، کیفیات ، واردات اور اعمال ہیں ، ان سب کا ماخذ اور مصدر ، صرف اور صرف اس کی ’’مشیت‘‘ ہے اور کوئی نہیں ! ٭ انسان کے ’’تکلیفی امور‘‘ کے لیے بھی اسی ذات واحد کی مرضی ، وحی اور منشا ہی ’’واحد مرجع‘‘