کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 34
ہے کہ کپڑوں میں سے اسےنہلا دیں ، دوسری جماعت کا نظریہ ہے کہ اگر عورت ہے تو اس کے صرف چہرہ یا ہاتھوں کاتیمم کرائیں ، اگر مرد ہو تو چہرہ کے ساتھ کہنیوں تک اس کا تیمم کرائیں ، بعض بزرگوں کا ارشاد ہے، تیمم نہ غسل ، بس انہیں یونہی دفن کردیں ۔ فقال قوم: یغسل کل واحدمنھما صاحبہ من فوت الثیاب وقال قوم تیمم کل واحد منھما صاحبہ و بہ قال الشافعی و ابوحنیفۃ و جمہور العلماء قال قوم: لا یغسل واحد منھما صاحبہ ولا تیممہ و بہ قال اللیث بن سعد بریدفن من غیر عسل .... ولذلک دای مالک ان تیمم الرجل المرأۃ فی یدیھا ووجھما فقط ... وان تیمم المرأۃ الرجل الی الرفقین (بدایۃ المجتہد: ص۲۲۷؍۱) شاہ ولی اللہ نے امام شافعی کامذہب پیرہن میں غسل دینا بتایا ہے (مصفی : ص۱۹۲؍۱)امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ کپڑوں میں اسے غسل دینے میں کوئی مخطور لازم نہیں آتا: ولا کراھۃ فی ھب الماء اھلا (محلی:ص۱۸۰؍۵)کیونکہ تیمم کے لیےشرط عدم الماء ہے (ایضاً : ص۱۸۱؍۵)مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ بیمار بھی کرسکتا ہے۔زہری اور قتادہ بھی پیرہن میں غسل دینے کو کہتے ہیں ۔ تغسل و علیھا ثیاب (محلی:ص ۱۸۱؍۵)فرماتے ہیں کہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کپڑے سے اوپر چھونے سے بھاگے مگر تیمم میں چھو ہی لیا: والعجب ان القائلین انھا تیمم، فروامن المباشرۃ خلف ثوب وابا حوھا علی البشرۃ وھذا جھل شدید و باللّٰہ التوفیق (محلی: ص۱۸۱؍۵) ہمارے نزدیک یہی مذہب اقرب الی الصوب ہے، حضور کو کپڑوں میں غسل دیا گیا تھا۔ (ابوداؤد) حضرت ابن عمر او رحضرت عطاء بھی کپڑوں میں غسل دینے کو فرماتے ہیں ۔ (ابن ابی شیبہ:ص۲۴۹؍۳) ٭٭٭