کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 33
اپنی بیویوں کو میں نے خود غسل دیا کرتا ہوں ، ان کی ماؤں اور بہنوں کو روک دیتا ہوں ۔ انی لا غسل نسائی و احول بینھن و بین امھاتین و بناتھن واخواتھن (محلی: ص۱۷۹؍۵) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ، میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں ۔ یغسل کل واحد صاحبہ (محلی: ص۱۷۹؍۵ و ابن ابی شیبۃ :ص۲۵۰؍۳) حضرت حسن بصری تمام شیوخ صوفیہ کی آخری کڑی ہیں ، ان کے بعد حضرت علی کاسلسلہ چلتا ہے۔ آپ حضرت جندب، حضرت انس، حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃ، حضرت معقل بن یسار، حضرت ابوبکرہ اور حضرت سمرۃ جیسے عظیم صحابہ کے شاگرد ہیں ۔ (خلاصہ:ص۶۶) حضر ت امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ جس صحابی کامخالف کوئی صحابی نہ ہو، حنفی اس سے خلاف کرنے کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں ، حضرت ابن عباس کی یہ روایت ہے، کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی مگر یہ خود اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ والحنفیون یعظمون خلاف الصاحب الذین لا یعرف لہ منھم فخالف وھذہ روایۃ عن ابن عباس لا یعرف لہ من الصحابۃ مخالف وقد خالفوہ (محلی: ص۱۸۰؍۵) حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ کسی مرد کا عورت کو اور عورت کامرد کو ہاتھ نہ لگے۔ اس کا تعلق زندوں سے ہے، مردوں سے نہیں ہے۔ اگر اس کاتعلق اس سے بھی کرنا ہے تو دلیل چاہیے۔ اذ لیس فلیس۔ اگر مردہ زندہ پر قیاس کرنا ہے تو یہ قیاس، قیاس من الفارق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو حضرت ابوطلحہ نے قبر میں اتارا تھا او راس میں بدن کا چھونا ہوتا ہے۔ حضرت اسماء نے حضرت ابوبکر کو غسل دیا تھا او رحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا پہلے انتقال ہوا تو میں آپ کو غسل بھی دوں گا اور کفن بھی پہناؤں گا۔ ’’وآنکہ زن مرد مردہ را نہ بیندو نہ غسل دہد اگرچہ خوف فتنہ نباشد مستندی نہ دارد بلکہ وجوب سر بہ نسبت احیاء است ۔ بہ نسبت اموات دلیلے می طلبد ولیس فلیس، واگر قیاس کنند بر احیاء، قیاس مع الفارق است و ابوطلحہ بنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رادر قبر نرود آوردہ و زود آوردن ناچار بمس میکنند و اسماء بنت عمیس غسل داد ابوبکر صدیق راد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمودند حضرت عائشہ را: تنبیہ: جہاں صرف عورتیں ہوں او رمرد مرجائے یا صرف مرد ہوں او رایک عورت فوت ہوجائے، ان میں بیوی یا شوہر نہ ہو، تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت کاکہنا