کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 31
حضرت عبدالرحمان بن عوف کے صاحبزادے حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ اگرعورتوں میں مرد مرجائے تو اس کی اہلیہ اس کو غسل دے۔ فی الرجال یموت مع النساء قال تغسلہ امرأتہ (ایضاً) حضرت عطافرماتے ہیں کہ اس کی بیوی اسے غسل دے۔ تغسل المرأۃ زوجھا (ایضاً) ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے یا نہ؟ احناف اس کو جائز نہیں سمجھتے۔مگر یہ بات محل نظر ہے کیونکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ حضور نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا توآپ کو غسل بھی میں دوں گا اور کفن بھی میں پہناؤں گا۔ لو مت قبلی لغسلتک و کفنتک (احمد و الدارمی و ابن ماجہ و ابن حبان والدارقطنی والبیہقی۔ تلخیص الجیر : ص۱۵۴) امام بیہقی فرماتے ہیں ، محمد بن اسحاق مدلس ہے، یہاں غعنہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق منفرد نہیں ہے بلکہ صالح بن کیسان اس کا متابع ہے کما رواہ احمد و النسائی (تلخیص : ص۱۵۴)فرماتے ہیں لغسلتک غلط ہے فغسلتک صحیح ہے (ایضاً) علامہ سندھی لکھتے ہیں : مجمع الزوائد والے فرماتے ہیں کہ اس کے راوی سب ثقہ ہیں ۔ وفی الزوائد اسناد رجالہ ثقات (حاشیہ سندھی علی ابن ماجہ : ص۴۴۷؍۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر وہ بات مجھے پہلے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں : لو کنت استقبلت من امری ما استدبرت ما غسل النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم الانساء ۃ (ابن ماجہ: ص۴۴۶؍۱) سندھی فرماتے ہیں کہ : محمد بن اسحاق کی تدلیس کا اندیشہ بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ حاکم وغیرہ کی روایت میں سماع کی تصریح آگئی ہے۔ ومع ذلک ذکرہ صاحب الزوائد ایضاً فقال اسنادہ صحیح و رجالہ ثقات لان محمد بن اسحاق دون کان مدلسا لکن قد جاء عنہ التصریح بالتحدیث فی روایۃ الحاکم وغیرہ (حاشیہ علی ابن ماجہ: ص۴۴۷؍۱)