کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 30
وھذا صاحب لایعرف لہ منھم مخالف (محلی:ص۱۸۲؍۵) احناف کے نزدیک یہ کام جائز نہیں ہیں : ولا یسرح شعر المیت ولا لحیتہ ولا یقص ظفرہ ولا شعرہ لقول عائشۃ علام تنقصون میتکم ولان ھذہ الا شیاء للزنیۃ وقد استغنی المیت منھا (ھدایہ باب الجنائز: ص۱۷۹؍۱) مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت منقطع ہے۔ وھو منقطع بین ابراہیم و عائشۃ (درایۃ باب مذکور) باقی رہی زینت کی بات؟ سو مردہ بھی ایک حد تک اس کا مستحق ہے۔ آخر اس کونہلایا جاتا ہے اچھا کفن دیا جاتاہے، اس کوخوشبو بھی لگائی جاتی ہے۔بہرحال زینت نہ سہی، اس کو بھدی حالت میں خدا کے ہاں بھیجنا مناسب نہیں محسوس ہوتا۔ واللہ اعلم۔ خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا: اس مسئلہ پر تو اجماع ہےکہ جب شوہر مرجائے تو عورت اس کو غسل دے سکتی ہے۔ نقل ابن المنذر وغیرہ الاجماع علی جواز غسل المرأۃ زوجھا (التعلیق الممجدہ :ص۱۲۹) قال الشاہ ولی اللّٰہ ، واتفقوا علی جواز غسل المرأۃ زوجھا (مسوی شرح مؤطا: ص۱۹۱؍۱) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو آپ کی زوجہ محترمہ (حضرت اسماء بنت عمیس )نے صحابہ کی موجودگی میں غسل دیا۔ ان اسماء بنت عمیس امرأۃ ابی بکر الصدیق غسلت ابابکر الصدیق حین توفی ثم خرجت فسألت من حضرھا من المھاجرین فقالت انی صائمۃ وان ھذا یوم شدید البر وقالوا: لا (مؤطا مالک :ص۱۹۱؍۱ و مؤطا محمد: ص۱۲۹) اس کی بھی وصیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔ عن ابن ابی ملیکۃ: ان ابابکر الصدیق حین حضرۃ الوفاۃ اوصی اسماء بنت عمیس ان تغسلہ وکذا قال ابن شداد (مصنف: ص۲۴۹؍۳ ابن ابی شیبۃ باب فی المرأۃ تغسل زوجھا) حضرت جابر بن زید نے اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کوغسل دے۔ انہ اوصیٰ ان تغسلہ امرأۃ (ابن ابی شیبۃ: ص۲۴۹؍۳) حضرت ابوموسیٰ کو اس کی اہلیہ نے غسل دیا تھا۔ (ایضاً :ص۲۵۰؍۳) عن ابراہیم بن مہاجران ابا موسیٰ غسلتہ امرأتہ (ایضاً ص۲۵۰؍۳)