کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 3
کتاب: محدث شمارہ 45
مصنف: ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور
ترجمہ:
فکرونظر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
توحید ...... توحید ....... توحید
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
خدا کو یکتا کہنے اور لا الہ الا اللّٰہ کے اصول پر اسے ماننے کانام ’’توحید‘‘ ہے۔
اگرچہ بُت ہیں جماعت کے آستینوں میں
محھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللّٰہ
نام کو تو ’’توحید‘‘ بڑی آسان سے تلمیح محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ’’عظیم امانت‘‘ ہے جس کوبے داغ واپس کرنے کے لیے ، روشن فکر،عظیم کردار، اونچے ایمان، بڑے ثبات اور حوصلہ کی ضرورت ہے، مہیب آسمان و زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑھ کر ، استقامت کی متقاضی ہے کیونکہ یہ دیوہیکل طاقتیں اس بار امانت کی گرانباری سے ڈر گئی تھیں ۔
﴿ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا﴾ (پ۲۲۔احزاب ع۹)
’’ہم نے (اس)امانت کو ، آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا (اور یہ بوجھ ان پر لادنا چاہا)تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے۔‘‘
لیکن انسان نے ’’لبیک ‘‘ کہی۔
﴿وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴾ (ایضاً)
اور انسان نے اس (بارامانت )کواٹھا لیا ، دراصل اپنےحق میں یہ بہت ہی ظالم اور انتہائی نادان نکلا ہے۔
اٹھایا اس لیے کہ ، اس کی اس میں صلاحیت ہے ، چونکہ یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے ، جو چین و آرام کی قربانی کی متقاصی ہے ، اور نہایت صبر آزما ڈیوٹی ہے ، اس لیے از راہ ترحم ، اسے ظلوما جھولا