کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 28
دارالافتاء عزیز زبیدی۔ واربرٹن استفتاء میت کے ناخن یامونچھیں اگر بڑھ گئی ہوں ۔زوجین کاایک دوسرےکوغسل دینا ۱۔ ایک لمبا بیمارمرجاتاہے ، اس کی حجامت بنانے والی ہوتی ہے ، یونہی دیکھاجائے تو اس کی شکل اور ڈراؤنی لگتی ہے، اگر اس کے لب وغیرہ درست کردیئے جائیں تو کیا جائز ہے؟ ۲۔ خاوند یا بیوی میں سے کوئی مرجائے تو کیا وہ ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں ، ایک صاحب اس کامذاق اڑاتے ہیں ۔صحیح کیا ہے؟ الجواب: میت کے ناخن وغیرہ: میت گو اب دنیا کے تکلفات اور ریت پریت سے دور چلی گئی ہے اور بہت دور تاہم ہمیں حکم ہے کہ اسے انسان سمجھیں اور اس کے ساتھ شائستہ، باوقار اور شایان شان معاملہ کریں ، مثلاً یہ کہ اس کونہلا کر خوشبو لگائی جائے، کفن سفید اور ستھرا دیا جائے، اس کو اچھے نام سے یاد کیا جائے، اس کی قبر پر نہ بیٹھا جائے، اس کی آنکھیں بند کردی جائیں وغیرہ وغیرہ۔ ا ن باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اب بھی اس کی شکل و صورت اور صفائی کاخیال رکھا جائے تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں ہے بلکہ بہتر ہے۔ حضرت زینب (حضور کی صاحبزادی)کا انتقال ہوا تو ان کے بالوں کو کنگھی کی گئی۔ ان اُم عطیۃ قالت مشطنا ھا ثلثۃ قرون (بخاری :ص۱۶۷؍۱) ولمسلم من روایۃ ایوب عن حفصۃ عن اُم عطیۃ۔ مشطنا ھا ثلثۃ قرون.... وفیہ حجۃ للشافعی ومن وافقہ علی استحیاب تسریح الشعر (فتح الباری:ص۱۳۳؍۳)وفی روایۃ مشطتھا ثلثۃ قرون (ابن ابی شیبۃ:ص۲۵۲؍۳ ورواہ ایضاً ابن ماجہ والنسائی وغیرھما) حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ میت کےناخن کاٹے جائیں ۔ عن منصور عن الحسن قال تقلم اظفار المیت (مصنف ابن ابی شیبۃ: ص۲۴۷؍۳)