کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 26
کہ بحر حیات کے مگرمچھوں میں رہ کر اپنی کشتی حیات کو سلامتی سے پار لے جائے۔ اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ صرف انسان کی بات نہیں بلکہ پوری کائنات اسی تزاحم او رکشاکش کا ہی نام ہے۔ او روہ ایک ایسا سٹیج ہے جس پر متناقض الخواص کے حامل یہی پتلے ہر وقت ایکٹ کررہے ہیں ۔ چونکہ ملائکہ کا استعجاب انسان بلکہ خدا تعالیٰ اب جودنیابسانا چاہتے تھے، اس ساری کائنات کے اسی نکتہ اور خاصہ سے بے خبری کانتیجہ تھا۔ اس لیے اس پر ان سے کہا گیا کہ جو میں جانتا ہوں ، اس کا آپ کو ہوش نہیں : انی اعلم مالا تعلمون۔ ۳۔ انسان کی عظمت کا دوسرا راز اس کی’’آگہی‘‘ ہے کہ اسے دانائے راز بنایا گیا ہے، ان کی حقیقت بین نگاہ او رمزاج شناس قلب و دماغ صرف کیمرے نہیں بلکہ تسخیر اور تخلیق کی قوتوں سے آراستہ بھی ہیں ، اس دنیائے بیکراں میں اس چھوٹے سے پتلے کی صلاحیتیں اس سے بھی وسیع تر اور بیکراں ہیں اسی لیے آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کے دائرہ عمل کی وسعتوں نے زمین و آسمان کی حدود فراموش وسعتوں پر کمندیں ڈال کر انہیں روند ڈالا ہے۔ اس کے برعکس نورانی فرشتوں کی نورانی مشعلیں ، مفوضہ امور سے پرے تھکی ماندی ، بجھی بجھی سی اور درماندہ سی دکھائی دیتی ہیں ۔ملاحظہ ہو آیت علم آدم الاسماء کلھا او رلا علم لنا الا ما علمتنا۔ ۴۔ آسمان و زمین کے سارے غیوب پر نگاہ صرف رب دانائے راز کی ہے، اس میں دوسرا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ (انی اعلم غیب الایۃ) ۵۔ انسان ملائکہ سے افضل ہے۔ فسجدوا لیکن اس کے باوجود اس کی رہنمائی اور وحی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا (فاما یاتینکم منی ھدی) ورنہ آزاردہ انجام سے دوچار ہوگا ( اولئک اصحب النار) ۶۔ غالب اکثریت جس کی مخاطب ہوتی ہے، اس میں شامل اقلیت خود بخود آجاتی ہے الا یہ کہ استثناء کی اس میں کوئی دفعہ رکھ دی جائے۔ (الاابلیس) ۷۔ خدا کے حضور، اس کے احکام کے سامنے ’’فلسفے چھانٹنا‘‘ ابلیس او راس کی ذریت کا شیوہ ہے۔ خدا کے بندوں کا نہیں ۔ (ابی واستکبر) ۸۔ جنت ، مرنے سے پہلے بندوں پر حرام نہیں ہے (اسکن انت و زوجک الجنۃ)لیکن اس کے باوجود اب اس کا مکین تشریعی احکام سے اونچا نہیں چلا جاتا (ولا تقربا ھذہ الشجرۃ)اسی طرح مرنے سے پہلے بہشت میں داخلہ،ابدی داخلہ نہیں بن جاتا۔ (قلنا اھبطوا) ۹۔ دنیا او راس کا قیام عارضی ہے، او ریہ ایک خاص نقطہ فنا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ (متاع الی حین)