کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 25
کی تائید ہوتی ہے۔غرض یہ کہ : انکار اور تکذیب آیات، عذاب الہٰی کو دعوت دینے والی بات ہے۔
ایک انسان ایک بات کو صحیح مانتا ہے لیکن اسے اختیار کرنے سے انکار کرتا ہے، دوسرا یہ کہ انکار کے ساتھ اس بات کی حقانیت اور افادیت کی بھی تکذیب کرتا ہے۔ یہ دوہرا سنگین جرم ہے۔ اس لیے فرمایا کہ یہ دوزخی لوگ ہیں ۔ کیونکہ جو ٹیڑھے چلتے ہیں ، ان کے بل آگ کی اسی بھٹی میں نکل سکتے ہیں ۔ ان کا اور کوئی علاج نہیں ہے۔باقی رہی اصحاب النار (دوزخیوں )کی پوری تفصیل؟ سو وہ کسی اور موقع پر پیش کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
ان آیات کا حاصل یہ ہے کہ:
خطاء کے سرزد ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خود ہی’’آداب معذرت‘‘ سکھائے، جب انہوں نے اس زبان میں اللہ کے حضور میں اپنی معذرت پیش کی تو وہ فوراً قبول کرلی گئی، کیونکہ اللہ اسے کبھی نہیں ٹھکراتا جو چل کراس کے ’’در‘‘ پر حاضر ہوتا ہے اور گڑگڑا کر معافی مانگتا ہے او ریہ محض اس کے رحم کا تقاضا ہے۔ کسی کاقرض نہیں دینا۔ تاہم ان سے کہا گیا کہ آپ اب یہاں سے تشریف لے جائیں ، ہاں اگرمیری طرف سے نبی او رکتاب کبھی تمہارے پاس پہنچ جایاکرے تو جو اس کی اطاعت کرے گااس کے لیے اسے وہی جنت گم گشتہ پھر مل جائے گی۔ لیکن جو لوگ انکار و حجود اور تکذیب کی راہ اختیار کریں گے انہیں دوزخی سمجھیے اور وہ آخر کار آگ کا ہی ایندھن بنیں گے۔
فقہ القرآن: اس رکوع ۴ سےمندرجہ ذیل احکام مستنبط ہوسکتے ہیں ۔
۱۔ خلق خدا کےرُشد و ہدایت او رفلاح و صلاح کے لیے کارجہاں بانی ’’نری اللّٰہ ہو‘‘ کہنے سے کہیں بہتر ہے۔ یہ اس صورت میں ہے، جب خلیفہ سے اسلامی ریاست کی سربراہی مراد لی جائے۔ (قال انی اعلم مالا تعلمون)
۲۔ باقی رہیں انسان کی غلط کاریاں ؟ گو وہ بُری او رمضر ہیں تاہم انسان کو ان سےمنزہ او رپاک پیدا نہیں کیا گیا او رنہ وہ غیر متوقع ہیں (اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء۔ الایۃ)لیکن اس کے باوجود اس کی افادیت کاپہلو غالب ہے، اور کارگاہ حیات کی اس کشمکش میں اس کی صلاحیتوں سے جومتوقع ہے، اس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ساری مخلوق میں انسان خدا کا ایک عظیم شاہکار ہے او رجو تخریبی عنصر اس کے خمیر میں پوشیدہ ہے، وہی دراصل اس کی عظمتوں کا امین بھی ہے اور متناقض الخواص کایہ عظیم پتلہ اپنے انہی متناقض خواص کے باہمی تزاحم او رکشاکش کیوجہ سے زندہ اور روز افزوں تابند ہے، اس لیےاسلام میں ترک دنیا کوئی نیکی نہیں ، نیکی یہ ہے