کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 22
ثلثۃ عشر جما غفیرا (زوائد ابن حبان ص۵۴؍۱) مسنداحمد میں ان کی تعداد تین سو پندرہ ہے۔ الرسل من ذلک ثلث مائۃ و خمسۃ عشرجماغفیرا (مسنداحمد، مسند ابی امامۃ) انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعداد کے سلسلے میں متعدد روایات آئی ہیں ، حضرت ابوذر، حضرت ابوامامہ اور حضرت انس ان کے راوی ہیں مگرکلام سے خالی ایک بھی روایت نہیں ہے، ہاں ابن حبان نے حضرت ابوذر کی روایت کی تصحیح کی ہے۔ وقد روی ہذا الحدیث بطولہ الحافظ ابو حاتم بن حبان البستی فی کتاب الانواع والتقاسیم وقدوسمہ بالصحۃ (ابن کثیر:ص۵۸۶؍۱)لیکن امام ابن کثیرفرماتے ہیں کہ امام ابن جوزی نے ابراہیم بن ہشام کی وجہ سے اس کو موضوع قرار دیا ہے اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ غیر واحد ائمہ نے اس راوی میں کلام کیا ہے: ولا شک انہ قدر تکلم فیہ غیرواحد من ائمۃ الجرح والتعدیل من اجل ھذا الحدیث واللّٰہ اعلم (ایضاً)گویا کہ موصوف بھی اس روایت کے سلسلے میں مطمئن نہیں ہیں ۔ ہاں حافظ ابن حجر عسقلانی کے کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ اس قابل احتجاج تصور کرتے ہیں یعنی اس کی کثرت طرق کی وجہ ہے۔ ووقع فی ذکر عدد الانبیاء حدیث ابی ذر مرفوعا انھم مائۃ الف واربعۃ و عشرون الفا الرسل منھم ثلث مائۃ و ثلثۃ عشر صححہ ابن حبان (فتح الباری:ص۱۶۱؍۶) نبی کا تعارف: نبوت ایک رفیع منصب ہے، جو اپنی مشیت او رمرضی کے تحت اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، اس مقام اور منصب تک رسائی ، علم و کشف کےذریعے ہوتی ہے نہ کسی ذاتی استعداد کی بدولت، اس کا تعلق جسم نبی سے ہے نہ اس کے عوارض سے، بلکہ اس کا تعلق اس سے بھی نہیں کہ وہ اپنے نبی ہونے کو جانتے ہیں ،اصل اس کا مرجع صرف یہ بات ہوتی ہے کہ اللہ نے ان کو اس کی اطلاع بخشی ہے کہ میں نے آپ کونبی بنا لیا ہے، اس لیےاس کی وفات سے بھی اس کا سلسلہ نہیں ٹوٹتا۔ قال ابن حجر: وھی الرفعۃ: والنبوبۃ نعمہ یحسن بھا علی من یشاء ولا یبلغا احدبعلمہ ولاکشفہ ولایستحقا باستعداد ولایتہ و معنا ھا الحقیقی شرعا من حصلت لہ النبوۃ، ولیست راجعۃ الی جم النبی ولا الی عرض من اعراضہ، بل ولا الیعلمہ بکونہ نبیابل المرجع الی اعلام اللّٰه لہ بانی نباتک اوجعلتک بنیادعلی ھذا فلا تبطل بالموت کما لا تبطل بالنوم والغفلۃ (فتح :ص۳۶۱؍۶) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے :کہ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح اور حضرت ادریس علیہم السلام