کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 21
هُوَ التَّوَّابُ۴؎ الرَّحِيمُ ()قُلْنَا اهْبِطُوا۵؎ مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ۶؎
کرلی، بیشک وہ بڑا درگزر کرنے والا مہربانی ہے۔ (جب)ہم نے حکم دیا کہ سب (کے سب)یہاں سے اتر جاؤ تو (ساتھ
__________________________________________
ہے۔ بہتر ہے کہ کوئی بندہ خدا اس کا ترجمہ اُردو میں شائع کرکے اسے عام کردے۔ اللہ تعالیٰ اسے اجز جزیل عنایت کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
۴؎ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (بڑا ہی درگزر کرنے والامہربان ہے)اگر بندہ کی خوئے توبہ اس کے گناہوں پربھاری ہے تو بندہ کو بھی تواب کہہ سکتے ہیں ، رب کو تو اس لیے تواب کہتے ہیں کہ معذرت قبول کرنے اور درگزر کرنے کی اس کی کوئی حد نہیں ہے،او رپھر کمال مہر و محبت او رکرم کے ساتھ قبول فرماتا ہے۔اس مرحلہ کے بعد حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ’’ خلعت نبوت‘‘ سے سرفراز کیا گیا۔ (تفسیر کبیر للرازی)
۵؎ اهْبِطُوا مِنْهَا (یہاں سے اتر جاؤ!)اس سے آدم و حوا اور ابلیس مراد ہیں ، بعض جگہ اھبطا منھا دونوں اتر جاؤ! آیا ہے۔ حضرت امام ابن القیم کی تحقیق یہ ہے کہ: جہاں جمع کا صیغہ ہے،وہا ں تینوں (آدم،حوا اور ابلیس)مراد ہیں او رجہاں تثنیہ (دو)کا صیغہ (لفظ)ہے، وہاں صرف آدم او رابلیس مراد ہیں ، حوا تبعاً آگئی ہے۔ان کا کہنا ہے ، آدم او رابلیس ثقلین (جن و انس)کےباپ ہیں ، او رانہی دونوں کے مابین عداوت کی داغ بیل پڑی تھی،او ریہی سلسلہ ان کا آگے بھی چلا۔ جنہوں (مثلاً زمخشری)نے ان سے مراد کچھ او رلیا ہے، انہوں نے اس کی تردید کی ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر ابن القیم ملاحظہ ہو!
۶؎ فاما یاتینکم منی ھدی (اگر ہماری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت پہنچے)اس سے ’’سلسلہ انبیاء‘‘ وارثان علوم انبیاء (علماء)اور صحف سماوی مراد ہیں ۔
انبیاء: ایک روایت کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔
قال ابوذر:قلت یارسول اللّٰہ ! کم الانبیاء؟ قال مائۃ الف و عشرون الفار (موارد الظمان الی زوائد ابن حبان ص۵۳)
امام ابن مردویہ کی روایت کی رُو سے ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔
قال مائۃ الف و اربعۃ عشرون الفا (تفسیر ابن کثیر :ج۱ ص۵۸۵)
امام ابن حجر نے بھی ابن حبان سے یہی روایت نقل کی ہے۔ (فتح :۳۶۱؍۶)
ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے۔
یارسول اللّٰہ ! کم الرسل من ذلک (وفی روایۃ ابن مردویۃ: منہم)قال ثلث مائۃ