کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 19
واتوب الیہ تکرھہ طائفۃ من السلف وھو قول اصحاب ابی حنیفۃ ھکاہ عنہم الطحاوی فقال الربیع بن خیثم، یکون قولہ واتوب الیہ کذبتہ وذنبا(شرح اربعین)قال بعض العارفین من لم یکن ثمرۃ استغفار تصحیح توبتہ فھو کاذب فی استغفارہ (ایضاً)
حدود اللہ کا نفاذ قبول کرنا بھی توبہ ہے۔
لقد تاب توبۃ لو قسمت بین امۃ لو سعثھم ..... فوالذی نفسی بیدہ لقد قابت توبۃ لوتا لھا صاحب مکس لغفرلہ (رواہ مسلم عن بریدۃ رضی اللّٰه عنہ)
امام بلخی نے عین العلم میں اس موضوع پر خصوصی روشنی ڈالی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
توبہ کا طریق کار: توبہ ایک لفاظی شے نہیں ہے بلکہ یہ اپنے ساتھ کچھ تقاضے رکھتی ہے ، جن کےبغیرتوبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔مثلاً یہ کہ گناہ پر پشیمان ہو۔
۲۔ اس کی تلافی کی صورت ہو تو وہ مثلاً اللہ کے سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی قضا یا کفارہ دے۔اگر کسی بندے کاکچھ مارا ہے تو اسے واپس کرے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اسے صدقہ کردے، رفاہ عامہ کے معاملات میں خرچ کرے یا عدالت کے حوالے کردے، اگر قصاص کی بات ہو تو بھی اس کے لیے اپنے کو پیش کرے،بدلے میں وہ خوں بہا لیں یا قتل کریں ، بہرحال قبول کرے۔ اگر یہ ممکن نہ رہے تو پھر اتنی نیکیاں کرے کہ ان حق تلفیوں کی مکافات ہوسکے، اگر کسی کو گالیاں دیں یا گلہ کیا تو کمال عاجزی اور شفقت سے ان سے معاف کرائے او رمافی مانگے۔
۳۔ بدی کے بعد اب نیکی کی بھرمار کردے۔ گانے باجے کی بجائے اب اتنی مدت قرآن سنے جتنا عرصہ جم کرمعصیت کی ہے، اب اتنی مدت کے لیے اعتکاف کو شعار بنائے، شراب کے بدلے حلال مشروبات صدقہ کرے، گلہ کے عوض اس کاذکر خیر کرے، لوٹ مار کے بدلے صدقہ خیرات کرے۔
۴۔ یہ عزم بھی کرے کہ یہ گناہ پھر نہیں کروں گا اور
۵۔ پورے خلوص کے ساتھ کرے؟ ہاں اگر اس لیے توبہ کرتا ہے کہ اب وہ گناہ اس کے مقدور میں نہیں رہا تو یہ توبہ ، توبہ نہیں رہے گی۔
۶۔ پھر نہادھو کر تنہائی میں چار رکعت نفل پڑھے او رمٹی پر پیشانی رکھ کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ روئے، گڑگڑائے ،اونچی اواز سے رب کو پکارے او رایک ایک کرکے گناہ یاد کرے او راس پر اپنے کو مامت کرے،ہاتھ اُٹھا کر رب کی حمد و ثنا کرے، درود شریف پڑھے، اپنی ذات، والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے دعائیں کرے۔