کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 18
ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون اللّٰہ فیغفرلھم (رواہ مسلم عن ابی ہریرۃ)
اس کے یہ معنی نہیں کہ :خدا خود مجرموں کے انتظار میں ہے بلکہ مجرموں اور گناہ گاروں کو مایوسی اور قنوطیت سے نجات دلانا مقصور ہے کہ: گھبراؤ نہیں ، اگر تم نے اپنی غلطی کا احساس کرلیا ہے تو ہم آپ سے نفرت نہیں کرتے، آپ کی معذرت قبول کرتے ہیں ۔ آئیے ! جی بسم اللہ۔
اس کے علاوہ درد بھری پکار اور فریاد اپنے اندر بلاکی کشش رکھتی ہے، اور یہ دولت ایک گناہ گار کے دل شکستہ کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔
مدام گوش بہ دل رہ یہ ساز ہے ایسا
جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے
اس لیے خدا کو ایسے گناہ گاروں کی تلاش رہتی ہے لیکن اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کو روٹھے ہوئے دوست بچھڑ کر پھر آملنے کا کبھی تجربہ ہوا ہے۔
نناوے کا قاتل، اب اپنے رب کو منانے کے لیے گھر سے اُٹھ دوڑا ہے او رمایوسی کے عالم میں ایک اور بھی قتل کرڈالا اور اسی تلاش توبہ میں راستہ میں موت نے آلیا تو حق تعالیٰ نے منزل کو قریب کردیا تاکہ رحمت کے ملائکہ کے لیے بہانہ بن جائے۔
فاوحی اللّٰہ الی ھذا ان تباعدی والی ھذہ ان تقاربی (جمع الفوائد بحوالہ شیخین)
حق تعالیٰ اپنے گناہ گار بندے کے انتظار میں رہتا ہے، تاوقتیکہ وہ موت کے نرغے میں آجائے یا یہ کہ: دنیائے دارالعمل کی بساط الٹ جائے۔
من تاب قبل طلوع الشمس من مغربھا تاب اللّٰہ علیہ (مسلم عن ابی ہریرہ)
گناہوں کا زنگ دل پر چڑھتا رہتا ہے، یہ تب دھلتا ہے ، جب وہ توبہ کرتا ہے۔
ان المومن اذا اذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب واستغفر صقل قلبہ (ترمذی وغیرہ عن ابی ہریرہ)
جھوٹی توبہ: زبان سے توبہ توبہ کرے او رکام بھی وہی بُرے جاری رکھے، اس کو توبۃ الکذابین کہتے ہیں ، اس لیے جو زبان سے ’’واتوب الیہ‘‘ کا ورد کرتے ہیں ، امام طحاوی او ردوسرے خفیوں کا یہ مذہب ہے کہ : ’’اتوب الیہ‘‘ کہنا مکروہ ہے اور عنداللہ یہ توبہ، توبہ شمار نہیں ہوتی۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں کہ یہی فیصلہ حق ہے۔
وھذا حق فان التوبۃ لا تکون مع الاصرار (شرح اربعین)واختلف الناس فی جواز قولہ