کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 17
رب سے بچھڑنے کے احساس کے بعد اس کے قرب و وصال کے لیے تڑپنے او رمنتوں سے اس کو منانے کو توبہ کہتے ہیں او رایک لحاظ سے تو یہ ایک’’سنت پیغمبری‘‘ بھی ہے اس لیے ارشاد ہے کہ : لوگو! رب کے حضور میں توبہ کرو! خود میں (بھی)دن بھر میں سو بار توبہ کرتا ہوں ۔ گویا کہ رجوع الی اللہ کا نام بھی توبہ ہے۔
یایھا الناس ! توبعا الی اللّٰہ فانی اتوب الیہ فی الیوم مائۃ مرۃ (رواہ مسلم عن الاغر المزنی وفی الادب عن ابن عمرو فی البخاری عن ابی ھریرۃ: واتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃ)
اظہار ندامت پر اللہ تعالیٰ اسے مزید کوستے نہیں بلکہ اسے خصوصی توبہ سے نوازتے اور اس پرناز کرتے ہیں ۔
ان العبد اذا اعترف ثم تاب اللّٰہ علیہ (رواہ البخاری عن عائشۃ)للّٰہ اشد فرحا بتوبۃ عبدہ حین یتوب الیہ من احدکم الحدیث (رواہ مسلم عن انس)
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
ہر انسان خطا کار ہے، مگر ان میں بہتر وہ ہیں جو بار بار توبہ کرتے ہیں ۔
کل بنی آدم خطاء و حیر الخطائین التوابین (دارمی عن انس، الترمذی)
اللہ تعالیٰ کو ایسے گنہگار پیارے لگتے ہیں جو خطا پر چونک پڑتے ہیں او ررب سے معافیاں مانگتے ہیں ۔
ان اللّٰہ یحب العبد المومن المفتن التواب (مشکوٰۃ بحوالہ احمد)
دراصل توبہ میں یہ احساس اور رب سے یہ عہد ضروری ہے کہ: یہ گناہ پھر نہیں کروں گا۔
التوبۃ من الذنب ان لا تعود الیہ ابدا (جامع بحوالہ ابن مردویہ عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ)
ایسی توبہ، توبۃ النصوح کہلاتی ہے: کیونکہ اس میں احساس ندامت کی روح کارفرما ہوتی ہے۔
التوبۃ النصوح الندم علی الذنب حین یفرظ منک فتستغفراللّٰہ تعالیٰ ثم لا تعود الیہ ابدا (ایصاً عن ابن ۔من)
یہ احساس او ریہ بے چینی حق تعالیٰ کی نظر عنایت کے لیے اپنے اندر بلاء کی کشش رکھتی ہے اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہاگر تم گناہ نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اور گناہ گار لے آئیں گے جوگناہ کرکے توبہ کریں گے تاکہ وہ اسے بخشا کریں کیونکہ اس سے ان کی شان رحیمی اور بندہ نوازی کااظہار ہوتا ہے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: والذی نفسی بیدہ لولم تذنبوا الذھب اللّٰہ بکم