کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 15
فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ﴾ (پ۴۔النساء ع۳) اب توبہ قبول نہیں ۔ موت سر پر آجائے یا توبہ کے ساتھ کفر و شرک کا سلسلہ بھی قائم رہے تو اب ان کی توبہ قبول نہیں ہے۔ ﴿وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ﴾ (ایضاً) یہ سراپاقوت و طاقت ہے۔ توبہ دلشکنی، ناتوانی اور احساس کمتری کی صورت نہیں بلکہ سامان جمعیت او رقوت کا سرچشمہ بھی ہے کیونکہ اب مرکز توجہ ایک ذات ہوگئی ہے۔ ﴿وَيَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ ﴾ (پ۱۲۔ہود ع۴) شرط یہ ہے کہ : توبہ کے بعد پھر انحراف کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ ﴿ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ ﴾ولا تتولوا مجرمین (ایضاً) اس کے علاوہ زندگی کے باقی سارے دنیوی مکارم حیات سے بھی وہ تمہیں سرفراز کردے گا۔ ﴿ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا () يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا () وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا ﴾ (پ۲۹۔نوح ع۱) بہترین سامان زیست : بہترزندگی اور بہتر سامان زیست ، انسان کی معراج تمنا ہے۔ قرآن کہتا ہے: رب کےحضور سچی توبہ تم کرو اور سبھی کچھ لو۔ ﴿وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ﴾ (پ۱۲۔ ھود ع۱۲) کفارہ بھی توبہ ہے : توبہ صرف زبانی کلامی بات نہیں بلکہ عمل کی ضمانت بھی دینا پڑتی ہے، اس لیےتوبہ کے ذکر کے بعد امن و عمل صلحا ثم اھتدیٰ بھی آیا ہے،چنانچہ خون ناحق کا کفارہ ’’خوں بہا ادا کرنا، غلام آزاد کرنا یا دو ماہ کے روزے رکھنا بھی’’توبہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ﴿ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ ﴾ (پ۵۔ النساء ع۱۳) نشہ دولت کے بدمستوں کے لیے توبہ بہتر ہے۔جو لوگ نشہ دولت میں بدمست ہیں او راسلام او راہل اسلام پرنکتہ چینی کرتے رہتے ہیں ، ان کے متعلق فرمایا، ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں ۔