کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 12
بلکہ ایک ایسی مغتنم افتاد بن گئی ہے، جس سے شیطان کی جان پر بن جاتی ہے۔ ملاء اعلیٰ سے روحانی مناسبت کی تحدید ہوجاتی ہے اور قرب الہٰی کی قدروقیمت کاذوق بڑھ جاتا ہے۔
جب تک جبین پہ خاک تیرے آستاں کی تھی
میری فتادگی پہ نظر دو جہاں کی تھیں
سانس کا تار حیات ٹوٹنے تک خدا کی طرف سے ’’ہرچہ ہستی باز آ‘‘ کی صدائے بندہ نواز کا سلسلہ خطا کار بندوں کو تھامنے کی ایک تدبیر اور مایوس کن تک دور جانے سے بچانے کی ایک قرآنی حکمت عملی ہے۔ ھل من مدکر۔
قرآن اور تو بہ :قرآن حکیم نے بعض پہلوؤں میں توبہ کے مفہوم میں ’’مغفرت ، استفغار اور انابت کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب و سنت کے مجموعی مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ توبہ میں بالخصوص معصیت کا پہلو متعین ہوتا ہے۔ (پوری زندگی کا تصور ہو تو بھی تعیین کی صورت نکل آتی ہے)بخلاف دوسرے الفاظ کے کہ ، ان میں تعیین ضروری نہیں ہے۔ تقصیر کے خوف سے بھی استغفار ہوتا ہے۔(مثلاً)
معناہ انھم یلتمسون من قبلہ الغفران فیھا یخافون من تقصیر ھم فیما یاتون و یذرون (تفسیر کبیر ص۳۷۶؍۲۔ آل عمران ع۱۴)
اس کے علاوہ استغفار تو کوئی بھی کسی کے لیےکرسکتا ہے مگر توبہ کوئی کسی کے لیے نہیں کرسکتا، خود کرنا پڑتی ہے۔ یہی کیفیت انابت کی ہے۔بہرحال انابت اور استغفار کا ذکر اپنے مقام پر آگیا ہے۔ وہ خود بہانہ چاہتا ہے۔ حق تعالیٰ چاہتے ہیں کہ بندہ اس کی طرف کرے اور وہ اس کی خطاؤں کو معاف کرکے ان کی توبہ قبول فرمائے۔ ﴿وَاللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ ﴾ (پ۵۔النساء ع۵)
توبہ ان کی جو اس کو مانتے ہیں ۔ حق تعالیٰ توبہ ان کی قبول کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں ۔
﴿ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ (پ۲۲۔ سباع۹)
حضور! غلطی ہوئی۔ بس آپ دل سے خدا کے حضور حاضر ہوکر اتنا سا کہہ دیں ! حضور! غلطی ہوئی! معاف کردیجئے۔
﴿ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ﴾ (پ۱۱۔ التوبہ ع۱۳)
غلطیاں معاف کرنا اس کا کام ہے۔ اس کا کام ہی یہ ہے کہ غلط کاروں کی غلطیاں معاف کرے۔ جو حق تعالیٰ کی اس ’’ خوئے درگزر‘‘ سے بے خبر ہیں وہ بہت بھول میں ہیں ۔
﴿ أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ﴾ (ایضاً)﴿ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ