کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 11
۲؎ كَلِمَاتٍ (کلمے، بول)الکلو: یہ اصل میں اس تاثیر کوکہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے، مثلاً کلام کا ادراک قوت سامعہ سے او رالکلم (زخم)کا ادراک قوت باصرہ سے۔ عربی میں کلام کااطلاق منظم اور مرتب الفاظ او ران کے معانی کے مجموعہ پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ مختلف منعوں میں استعمال ہوا ہے۔مثلاً امانت (۳۳۔۷۲)فیض، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، کلمہ توحید، بشارت (۳۔۳۹)قضیہ(۶۔۱۱۵) معجزہ (۱۰۔۳۳) میعاد(۲۰۔۱۲۹)حکم ازلی (۴۲۔۱۴)مسلمہ دلائل (۸۔۷)پیش گوئی (۴۸۔۵)(مفردات القرآن للراغب ملخصاً)یہاں پر اس سے مراد ’’مخصوص دعا ‘‘ ہے جس کو سورہ اعراف میں ذکر کیاگیا ہے۔ یعنی ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (پ۸ اعراف ع۲) ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے تئیں آپ تباہ کیا او راگر تو ہم کو معاف نہیں فرمائے گا او رہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم بالکل برباد ہوجائیں گے۔‘‘ تفاسیر میں کچھ او رکلمات بھی منقول ہیں جن کے ساتھ عجیب قسم کی حکایات بھی بیان کی گئی ہیں ۔ مثلاً اللھم اسئلک بجاہ محمد عبدک و کرامتہ علیک ان تغفرلی خطیئتی (تفسیر عزیزی وغیرہ بروایت ابن المنذر)لیکن عموماً یہ غیرتسلی بخش روایات ہیں ۔ اکثر کے راوی کمزور ہیں ، کچھ کاتعلق اسرائیلیات سے ہے او رکچھ موضوعات میں سے ہیں ، بہرحال قرآن حکیم نے ان کی دعا کے جو کلمات بیان فرمائے ہیں ، ہمارے نزدیک صرف وہی صحیح ہیں ، ان میں سے ان کی بے چینیوں اور تڑپوں کابھی خوب اندازہ ہوتا ہے اور الفاظ میں جو جامعیت او رگہرائی ہے وہ بھی حق تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعا کے شایان شان محسوس ہوتی ہے دوسروں میں یہ سب باتیں یک جانہیں ملتیں ۔ ۳؎ فَتَابَ عَلَيْهِ (تو اس کی توبہ اور معذرت قبول کرلی)معصیت کامرتکب گویا کہ حق تعالیٰ سے منہ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے، اور توبہ کی صورت میں گویا وہ احساس ندامت کے ساتھ سرجھکائے، اپنے رب کی طرف رُخ کیے او راس کے حضور حاضر ہوکر الحاح و زاری کے ساتھ اس سے معافی مانگتا ہے یوں سمجھیے کہ توبہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ تجدید تعلق کی ایک سنجیدہ کوشش اور تہیا کا نام ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ : تجدیدتعلق کے بعد، رب کی طرف انسان کی لپک دو آتشہ ہوجاتی ہے، جیسا کہ کچھ عرصہ بچھڑے رہنے کے بعد دوت جب اپنے دوست سے ملتا ہے تو وہ پیاس اور وصال میں ایک خاص کیف اور لطف محسوس کرتا ہے۔ اس لیےجہاں گناہ ایک گھناؤنا جرم ہے، وہاں معنی خیز احساس گناہ بھی ایک نیکی بن جاتاہے اور تعلق باللہ کی استواری کی یہ ایک نشانی بھی، اگر گناہ پر احساس اور ذوق کی یوں ارزانی ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ یہ گناہ، گناہ نہیں رہا