کتاب: محدث شمارہ 45 - صفحہ 10
التفسیر والتعبیر مولانا عزیز زبیدی،واربرٹن سُورہ بَقَرہ (قسط ۱۶) فَتَلَقَّى ۱؎آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ ۲؎فَتَابَ عَلَيْهِ۳؎ إِنَّهُ ’’پھر آدم نے اپنے رب سے (معذرت کے چند)کلمے سیکھ لیے اور خدانے ان کی توبہ (معذرت)قبول _______________________________________________ ۱؎ فَتَلَقَّى (پھر ملا۔ منہ پھر اس سے سیکھ لیا)الفاظ دعا او ران کےطرز ادا کے ربانی الہام او رالقا کو سیکھنے سے تعبیر کیاگیاہے۔ اس انداز سے خدا کی اپنے بندے سے دلچسپی کے معنی ہیں کہ خدا کو آدم کی اس لغزش پر غصہ نہیں آیا، ترس آیاہے، کیونہ ان کی یہ لغزش خدا سے غفلت کا نتیجہ نہیں تھی رب کے حضور میں سدا حاضر رہنے کی تڑپ کا نتیجہ تھی۔ ہاں گو یہ ایک لغزش تھی تاہم ہزار نیک نیتی کے باوجود اس کے جوقدرتی مادی نتائج تھے، وہ بہرحال ظاہرہوکر رہے۔جیسے سہواً مکان کی بلندی سے پھسل کر نیچے گرنے کے ہوسکتے ہیں ، ویسے ہی یہاں بھی ہوئے، سہواً جو لغزش ہوتی ہے وہ گناہ کے الزام سے تو بری ہوتی ہے لیکن اس سلسلے کے جو قدرتی مادی نتائج ہوتے ہیں ان سے تحفظ کی کوئی گارنٹی اسے حاصل نہیں ہوتی۔ الہامی تلقین اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات کانتیجہ ہوتی ہے جس سے غرض صرف یہ ہوتی ہے ک بندے کی دعا جلد سے جلد اجابت سے ہمکنار ہوجائے ، کیونکہ خدا کے ہاں قبولیت دعا کے کچھ خاص آداب اور اسرار و رموز ہیں ، ظاہر ہے حتمی طور پر ان کی نشاندہی وہ ذات کریم خود ہی کرسکتی ہے یا اس کا فرستادہ،دوسروں کی باتیں تو تیر تکے والی باتیں ہوتی ہیں ، اس لیے ماثور دعاؤں کو اپنانے پر زیادہ زور دیا گیاہے، جو لوگ اپنی ہانکتے ہیں یا ماثورہ دعاؤں میں خود ساختہ الفاظ کے ٹانکے لگاتے ہیں وہ نشانے پربیٹھنے والے یقینی تیر نہیں کہلاتے۔