کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 7
علامہ اقبال تو اس سلسلے میں اس قدر حساس ہیں کہ وہ کہتے ہیں : قوم کا صالح عنصر اگر وہ جبرئیل بھی تھا تو جب اسے ’’فرنگ‘‘ کی صحبت نصیب ہوئی تو وہ ابلیس ہی ہو گیا: علم ازو رسوا ست اندر شہر و دشت جبرائیل از صحبتش ابلیس گشت (مثنوی پس چہ باید کرد) وہ فرماتے ہیں جتنے مسائل پیدا ہو گئے ہیں ، وہ سب اس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ؎ مشکلات حضرت انساں ازد است آدمیت راغم پنہاں ازد است گو وہ بظاہر بڑے معصوم اور بکری کے لیلے نظر آتے ہیں لیکن اصل میں وہ گرگ ہیں ۔ گر گے اندر پرستینِ برّۂ ہر زباں اندر کمینِ برۂ اسے کوئی طبقاتی عصبیت تصور کرے یا ملتِ اسلامیہ کے مفاد کی بات؟ بہرحال ہم پوری قوم سے یہ بات ببانگ دُہل کہیں گے کہ آپ کے روگوں کی دوا یہ ’’ذریت فرنگ‘‘ نہیں ہے بلکہ وہ پاک نہاد روحیں ہیں جن کی آنکھوں میں روحِ حجازی کی شرم ہے۔ یہ سوشلسٹ کُوچہ گرد رسوائے زمانہ دانشور اور یہ سرمایہ دار قارون، نوعِ انسان کو جو ذہن دے رہے ہیں وہ علم و ہوش کی بات نہیں بلکہ حقیقت میں وہ ’’حجابِ اکبر‘‘ ہے جو ملتِ اسلامیہ کی مت مارنے کے لئے بالخصوص ’’بندۂ مسلم‘‘ کو وہ مہیا کر رہے ہیں ، یہ سب بت پرست، بت فروش اور بت گر ہیں ۔ دانشِ حاضر حجا اکبر است بت پرست و بت فروش و بت گراست (اسرار و رموز ص ۷۷) ملک پر قابض گروہ نے سیاست کے میدان میں اترنے سے لے کر اب تک کتنے روپ بدلے، کیا کیا سو انگ رچائے اور کس کس انداز سے اپنی عقیدت کیش قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی؟ اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو شاید اب اسے پہچانا بھی نہ جا سکے۔ غالباً سمندر پار سے جو دشمنِ اسلام قوم ہم پر بلائے بے درماں بن کر نازل ہوئی تھی اس نے بھی اپنی کرسی اقتدار کو طول دینے اور ہماری قوم کو اندھیرے میں رکھنے کے لئے اتنے پاپڑ نہیں بیلے تھے جتنے اس پارٹی اور اس کے چیئرمین نے پینترے بدلے ہیں ۔ آپ کہیں گے کہ حالات سازگار نہیں ہیں ہم کہتے ہیں کہ مسلم کے لئے حالات کبھی بھی سازگار