کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 6
سکتا۔ ہاں ان سانڈوں کی لڑائی میں ملک و ملت پر کہیں آنچ نہ آنے پائے بس اس کے لئے دست بدعا رہیے۔ پیپلز پارٹی بحیثیت نظم کے ختم ہو گئی ہے۔ جتنا اور جیسا کچھ بظاہر ڈھانچہ نظر آتا ہے وہ دھونس کا رہین منت ہے یا لالچ اور حرص و آز کا۔ اس سے پرے اس کی تہہ میں اور کوئی خیر کا عنصر بھی کار فرما ہو؟ بظاہر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ملک اور قوم کی یہ کتنی بد نصیبی ہے کہ جو چیز ہر مذہب اور عقل و ہوش کے ہر مکتبِ فکر میں بری ہے، اسے یہاں ’’دین و دانش‘‘ کی معراج تصور کیا جا رہا ہے۔ یعنی عوام اور خواص کو ’’اُلّو‘‘ بنانا۔ حالانکہ یہ کوئی کارِ خیر نہیں ہے۔ لیکن یہاں اسے سیاست کا شاہکار قرار دیا جا رہا ہے داؤ پیچ دراصل متحارب اقوام کے مابین تو ایک حکمتِ عملی تصور کی جا سکتی ہے لیکن اپنی قوم اور قوم کے جمہور سے ’’کہنا کچھ اور کرنا کچھ‘‘ قوم کی توہین تو کہلا سکتاہے، اِسے سیاست کا شاہکار کہنا ذہنی دیوالیہ کی نشانی ہے۔ اب قوم ایک چوراہے پر پہنچ گئی ہے، جہاں حیرت اور مایوسی کے سوا اس کو کچھ نہیں دکھائی دیتا اور یہ محض اس لئے کہ وہ ہر نعرے باز سیاسی شاطر کے نعرے پر اعتماد کر کے اس کے پیچھے ہو لیتی رہی ہےلیکن چند قدم ان کے ساتھ چلنے کے بعد اس نے ہمیشہ یہی محسوس کیا ؎ جو کچھ کہ دیکھا خواب تھا، جو سنا افسانہ تھا اب اسی قوم کی اکثریت کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ ان سے تو ’’غیر‘‘ (یعنی انگریز)ہی اچھے تھے۔ اپنی قوم کے لیڈروں کے بارے میں ان کا یہ تاثر دراصل اس امر کا غماز ہے کہ وہ مجموعی طور پر اپنی قوم کو نا اہل تصوّر کرتی ہے، حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ ہماری قوم انتہائی زرخیز کھیتی ہے جس کی کوکھ سے سینکڑوں عالی دماغ اور عالی ظرف امام پیدا ہوئے ہیں ۔ ہاں اب ایسا عنصر آکر ضرور چھا گیا ہے جو ذہنی طور پر ’’اغوا شدہ‘‘ ہے۔ شکنجہ سے قوم کو نکالا گیا ہے۔ انہوں نے اس طبقہ کو جو ملک میں مؤثر حیثیت رکھتا تھا اس ڈھب سے تیار کیا تھا جو ان کے چلے جانے کے بعدبھی ان کی نمائندگی کا فریضہ انجام دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طبقہ کو ہدایت دے یا اس بوجھ کو ملتِ اسلامیہ کے دوش ناتواں سے اتار پھینکے۔ بہرحال جو ٹولہ اس وقت قوم کی گردن پر سوار ہے۔ قوم کے تمام مسائل اور الجھنوں کے باعث اور بنائے فساد بھی یہی طبقہ ہے۔