کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 5
اپنے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ جہاں صورتِ حال یہ ہو، وہاں ملی وحدت، باہمی مواسات اور خیر خواہی کی فضا مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ جب ان کی ذاتی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں تو رہزنوں کے اس ٹولے میں بری طرح تو تکار شروع ہو جاری ہے اور اندر کا کوڑھ ابھر کر باہر آجاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، مسٹر جن کو جماعت کی حقانیت کا معیار اور روحِ جماعت قرار دیتے تھے، دوسرے دن جب وہ ان سے الگ ہوئے تو وطن دشمن، سیاست سے نابلد اور اقتدار کے ناقابل کہلائے، اسی طرح جب وہ لوگ جو یک قالب دو جان تھے مسٹر سے ناراض ہوئے تو اس کو وہ جلی کٹی سنائیں کہ رہے رب کا نام۔ قرآن کی نگاہ میں ، یہ بھان متی کا کنبہ بس کچھ دن کا مہمان ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے قدرتی کشش نہیں ہے بلکہ محض وقتی طور پر خود غرضوں کے ٹولے کا یہ میلہ لگ گیا ہے، جو چند لمحے چلنے پھرنے کے بعد ہوا ہو جائے گا۔ ان کی یہ ٹیپ ٹاپ اور دھاک صرف ظاہری ہے، اندرونی طور پر یہ لوگ ایک دوسرے سے حد درجہ بیگانہ اور بالکل کھوکھلے ہیں ۔ ﴿بَاْسُھُمْ بَیْنَھُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُھُمْ شَتّٰی﴾ (پ۲۸۔ حشر۔ ع۲) آپس میں ان کی بڑی دھاک (بیٹھی ہوئی ہے)ہے تو ان کو سمجھے کہ سب ایک ہیں حالانکہ ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کے لئے خلاف وہ بھدی قسم کی سازشیں بھی کرتے ہیں مگر اس سے نقصان دوسرے کا نہیں ان کا اپنا ہوتا ہے۔ ﴿وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّءُ اِلَّا بِاَھْلِہ﴾ (پ۲۲۔ فاطر۔ ع۵) اور بری تدبیر (الٹی)بری تدبیر کرنے والے ہی پر پڑتی ہے۔ چنانچہ آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ جو ٹولہ عوامی ٹولہ کہلاتا تھا اور بظاہر اپنے چیئرمین کی مٹھی میں نظر آتاتھا، اور ان کے چیئرمین بھی سب سے بڑے عوامی لیڈر اور جمہوری راہ نما دکھائی دیتے تھے۔ وہ آج یوں تتر بتر ہو رہا ہے، جیسے یہ کبھی مل کر بیٹھے ہی نہ تھے، دراصل اس کی یہی وجہ تھی کہ وہ کسی کلمہ جامعہ اور ملی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں تھے، کفن چوروں کا ٹولہ تھا جو صرف کام و دہن کے چسکے کے لئے اکٹھا ہو گیا تھا۔ اس لئے جب بندر بانٹ شروع ہوئی تو جوتوں میں دال بٹنا بھی شروع ہو گئی۔ اور یہ تان کہاں جا کر ٹوٹے گی؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا