کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 48
قیمت : ۴ روپے صفحات : ۱۲۴ ملنے کا پتہ : اسلامی اکیڈمی، ناشرانِ کتب اردو بازار لاہور کارگاہ حیات میں حق اور باطل کی جنگ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ دنیا کی رونق اسی وجہ سے ہے اور زندگی کی ساری تگ دو اِسی کشمکش کا نتیجہ ہے اسی لئے دنیا کو ایک آزمائش گاہ قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ اور صحائف سماوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باطل کا مزاج ہمیشہ یکساں رہا ہے اور حق کی فطرت بھی ہمیشہ غیر متبدل رہی ہے۔ اس لئے جب دونوں طاقتوں میں تصادم ہوا تو تصادم کی نوعیت بھی سدا ایک جیسی رہی۔ یہ ٹکراؤ اور تصادم آج بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں فاضل مولّف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث پیش کی ہے۔ بَدَءَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَءَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاء تشریح میں لکھتے ہیں ۔ ’’اسلام جب آیا تو وہ اپنی خالص عقلیت، اپنے بے آمیز فطرت، اپنے تصورات کی رفعت اور اپنے اصولوں کی پاکیزگی کے اعتبار سے اس دنیا کے لئے بالکل نرالا، بالکل اجنبی اور بے گانہ تھا جو نسل پرستوں اور رسمیات کے بندوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر ایک ایسا دور آنے والا ہے جب دنیا اسی طرح جاہلیت میں مبتلا ہو گی اور اسلام اس میں ویسا ہی اجنبی اور بے گانہ ہو جائے گا۔ اس کا نظامِ تہذیبِ، اس کے قوانینِ معاشرت، اس کے اصولِ سیاست، سب کے سب دنیا کے لئے نا مانوس اور ناقابلِ گرفت ہو جائیں گے۔ لوگوں کے تنگ دماغ میں اس وسیع اور بلند نظامِ زندگی کا تخیل سما ہی نہیں سکے گا جسے اسلام پیش کرتا ہے۔ (ص ۲۵۔۲۶) مؤلّف نے موجودہ حالات کے تجزیہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام اور جاہلیتِ جدیدہ میں یہ کشمکش آج بھی جاری ہے۔ اندازِ بیان دلنشین اور عمدہ ہے۔ ناشرین نے اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع کر کے اہم خدمت انجام دی ہے۔ گاہے گاہے کتابت کی غلطیاں ملتی ہیں ۔ا مید ہے آئندہ اس طرف توجہ دی جائے گی۔ (ابو شاہد)