کتاب: محدث شمارہ 44 - صفحہ 41
تقی الدین بن رافع، عماد الدین حسینی، عز الدین اربلی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ ان محدثین کرام کی فہرستِ اسماء سے پتہ چل سکتا ہے کہ یہ دار الحدیث کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ ہر دار الحدیث اپنے اساتذہ گرامی قدر کی وجہ سے شہرت پاتا اور مرجع خلائق بنتا ہے۔ ۲۔ اشرفیہ: اس دار الحدیث کو ملک اشرف موسیٰ بن عادل برادر زادہ سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس نے خرید کر دار الحدیث بنایا اور انہیں کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی تاریخ تعمیر ۶۳۰؁ھ ہے۔ بعض محدثین کرام یہ ہیں ۔ علامہ ابن الصلاح (م ۶۴۳؁ھ)ابن الخرستانی، ابو شامہ، امام نووی، زین الدین فاروقی، کمال الدین شریشی، صدر الدین بن الوکیل ابن الزملکانی، حافظ بزّی، علامہ حافظ تقی الدین ابسکی۔ حافظ ابن کثیر اور قطب الدین خیضری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ ۳۔ الاشرفیہ البرانیہ: دمشق کے مشہور ترین پہاڑ قاسیوں کے دامن میں نہر یزید کے کنارے تقی الدین التنکیزی وزیر کے قبر کے بالکل سامنے واقع ہے۔ اس دار الحدیث کی بنا کا سہرا بھی ملک اشرف کے سر ہے۔ محدثین کرام: قاضی شمس الدین ابن ابی عمر، امام شمس الدین بن کمال مقدسی، تقی الدین سلیمان بن حمزہ، شرف الدین القائق حنبلی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ ۴۔ البھائیہ: یہ دار الحدیث باب طوما میں ہے یہ دار الحدیث بہاء الدین ابو محمد القاسم بن بدر الدین ابو غالب المظفر (م ۷۸۲؁ھ)کا گھر تھا۔ اس کے بعد دار الحدیث کی شکل دے کر اس میں علم حدیث کا چراغ روشن کیا گیا۔ اس دار الحدیث کے مہتمم و متولی کا نام ابو المحاسن ابن جماعہ تھا۔ ۵۔ الحمصیہ: حلقہ حمص کے نام سے مشہور تھا اب یہ ناپید ہے۔ اس دار الحدیث میں حافظ بزّی اور علامہ حافظ صلاح الدین علی بن کیکلہ نے درس حدیث دیا ہے۔ ۶۔ الدواداریہ: یہ دار الحدیث جس کے ساتھ ایک مدرسہ اور ایک رباط بھی ہے۔ باب الفرج میں ہے۔ اس کے بانی حافظ علم الدین سنجر الدوادار (م ۶۹۹؁ھ)ہیں حافظ علم الدین ترک کے ایک مشہور و معروف عالی مرتبت خاندان کے فرد ہیں ۔ اس دار الحدیث کے محدثین کرام